تنظیم اساتذہ خیبر پختونخو ا نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں تنظیم سے منسلک اپنے تمام ارکان وکارکنان اور معاونین کو ہدایت کی ہے کہ وہ حالیہ مون سون کے موسم میں اپنے اپنے سکولوں،گھروں اورارد گرد کے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ پھل دارا ور سایہ دار درخت لگائیں‘اس مہم کو شین وطن شاداب وطن کا عنوان دیاگیا ہے جس کے معنی سرسبز وتروتازہ وطن کے ہیں یعنی اس مہم کا مقصد زیادہ سے زیادہ پودے لگا کر وطن عزیز کو سرسبز وشاداب بنانا ہے‘یہ فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا گیاہے جب پوری دنیا کو باالعموم اور پاکستان جیسے ترقی پذیرملک کو باالخصوص ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تغیرکاسامنا ہے‘ ہمارے ہاں کارخانوں سے اٹھنے والا مضر صحت دھواں ،گاڑیوں کا بے ہنگم شور شرابہ، بارشوں کی کمی،چہار سو اڑتی ہوئی دھول اور سب سے بڑھ کر کہیں سڑکوں کو چوڑاکرنے کہیں نت نئی عمارتوں کی تعمیر ،کہیں نئی ہاﺅسنگ سکیموں کی بھرمار اور کہیں کارخانوں اور پلازوںکی تعمیر اور توسیع کے نام پر درختوں کی مسلسل بے دردی سے کٹائی کاجو سلسلہ جاری ہے اس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی رہی سہی کسر بھی پوری ہو رہی ہے۔ اس طرز عمل سے ہمارے وہ علاقے بھی دشت وبیاں باں کا منظر پیش کرنے لگے ہیں جو کبھی اپنی شادابی اور درختوں کے گھنے سایوں کے لئے مشہور ہواکرتے تھے‘ پشاور جو کبھی پھولوں اور باغات کا شہر کہلاتا تھا اب اس کا شمار دنیا بھر کے آلودہ ترین اور گندگی کے ڈھیروں کے لئے مشہور شہروں میں ہوتا ہے۔
پشاور شہر جو کہ چاروں اطراف سے دیہات اور مواضعات میں گرا ہو اہے اس لئے ماضی میں شہر اور قریب کے ان دیہی علاقوں کے درمیان اپنائیت اور قربت کا ایک مضبوط اور پرخلوص رشتہ قائم تھا‘پشاور کے گرد ونواح کے بیسیوں دیہات کے باسی اپنی ضروریات زندگی کے لئے شہر کا رخ کرتے تھے جس کے لئے ماضی میں تانگے اوربیل گاڑیاں استعمال ہوتے تھے پھر آہستہ آہستہ ان کی جگہ بسوں اور پک اپس ، سوزوکیوں ، رکشوں اور موٹر کاروں نے لے لی ۔ذرائع آمد ورفت کی ان نئی سہولیات نے اگر ایک طرف مسافطوں کو گھٹا کر کم کردیا ہے تو دوسری جانب یہ جدت اپنے ساتھ ہماری بہت ساری درخشندہ روایات کے ساتھ ساتھ پھلوں اور پھولوں کے باغات بھی بہا کر لے گئی ہے‘پشاورکے مضافاتی دیہات میں ہر طرح کی سبزیوں اور اناج کی کاشت کے ساتھ ساتھ پھولوں اور پھلوں کے گھنے اور وسیع وعریض باغات بھی ہو ا کرتے تھے لیکن اب یہ باغات قصہ پارینہ بن چکے ہیں اور جو تھوڑے بہت رہ گئے ہیں انہیں بھی ہاﺅسنگ سکیموں کی غیر منظم اور بے ہنگم سکیموں کے ذریعے ختم کیا جارہا ہے۔ یہ باغات زیادہ تر آلوچے،آڑو اور خوبانی پر مشتمل ہو ا کرتے تھے لیکن آ ج ان کے نام ونشان بھی مٹ چکے ہیں۔موٹر وے پر پشاور کی حدود میں داخل ہونے پر اب بھی ہمیں ایسے سائن بورڈز پڑھنے کو ملتے ہیں جن پر یہ خوشنما جملے لکھے ہوتے ہیں کہ یہ علاقے آڑ وکے باغات کے لئے مشہور ہیں حالانکہ ہمیں موٹر وے کے ارد گرد ان باغات کا نام ونشان تک نظر نہیں آتا ہے۔
بہرحال اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شین وطن شاداب وطن کے نام سے شجر کاری کی جس مہم کا آغا زکیا گیا ہے اس پر تنظیم کے ساتھ ساتھ اس کے صوبائی صدر مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے درست سمت میں ایک مثبت قدم اٹھایا ہے‘یہاں اس امر کی نشاندہی بھی خالی ا ز دلچسپی نہیں ہوگی کہ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کی اجتماعی ترقی اور بہترین ماحول کے لئے اس ملک کے کل رقبے کا 20تا 25فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہئے جب کہ پاکستان میں یہ شرح بمشکل چار سے پانچ فیصد ہے جس سے پاکستان میں جنگلات ا ور جنگلی حیات کو درپیش مشکلات اور چیلنجزکا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے‘یہ بجا ہے کہ موجودہ حکومت نے اس چیلنج کا ادراک کرتے ہوئے پورے ملک اور خاص کر خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی مہم کے ذریعے بڑے پیمانے پر شجر کاری کا آغاز کیا تھا ‘حرف آخر یہ کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ شجرکاری جسے صدقہ جاریہ کہا گیا ہے اور جس کی اسلامی تعلیمات میں بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں کو صرف حکومت کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑنا چاہئے ۔