بلدیاتی ادارے کسی بھی جمہوری معاشرے کی جان اور پہچان ہوتے ہیں۔یہ وہ فورم ہے جس کے ذریعے معاشرے کے ستم زدہ عوام کو ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک آج ہمیں جمہوریت کے استحکام کے جس معراج پر کھڑے نظر آتے ہیں اس میں بنیادی کردار مقامی بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا باقاعدگی سے منعقد ہونے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کی فعالیت اور اس پلیٹ فارم سے لوگوں کے مسائل کا مقامی سطح پر فی الفور حل ہونا ہے۔اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ ہمارے ہاں جدید مغربی جمہوریت کا تصور برطانوی راج کے مرہون منت ہے۔تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے ہم جب بھی برصغیر پاک وہند کی تاریخ اور اس میں انگریزوں کی یہاں آمد اور لگ بھگ دوسو سال تک ان کے اقتدار پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ عرصہ بلا شک وشبہ برصغیر پاک وہند کے کروڑوں عوام کی بے بسی کے منہ بولتے ہوئے ثبوت کے طور پر سامنے آتا ہے۔بنگال،میسور،پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا پراپنے توسیع پسندانہ اقدامات کے ذریعے قبضوں خاص کر جنگ آزادی1857ءکے دوران اور اس کے فوراً بعد ہندوستان کے مسلمانوں پر جس طرح عرصہ حیات تنگ کیا گیا اور ان پر مختلف سزاﺅں کی صورت میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر جو مظالم ڈھائے گئے اس بحث سے قطع نظر ایک سوال ضرور ذہن میں اٹھتا ہے کہ اگر انگریزوں کو یہاں آنا نصیب نہ ہوتا تو کیا پاکستان کا بننا ممکن ہوتا،کیا یہاں کے لوگوں کو جمہوریت سے مستفید ہونے کا موقع مل سکتا تھا،کیا یہاں سیاسی جماعتیں وجود میں آ سکتی تھیں،کیا یہاں ووٹ کے ذریعے حکومتیں بننے اور ٹوٹنے کا انتخابی عمل پنپ سکتا تھا۔
عجوبہ نماپلوںاورسرنگوں کاحامل ریلوے اورشاہراہوں کا ناقابل یقین نیٹ ورک وجود میں آ سکتا تھا۔ اسی طرح ڈاک،زمین کی پیمائش، ریوینیوسسٹم ‘ پولیس اور سول سروس کا نظام انگریزوں کے یہاں متعارف کرائے گئے وہ اقدامات ہیں جن کی بناءپرہی پاکستان، بنگلا دیش اور بھارت میں آج یہ تمام ادارے ان ممالک کے نظام ہائے مملکت کی بنیاد ہیں۔ان ہی اداروں میں ایک اور قابل ذکر ادارہ مقامی حکومتوں کے قیام کا ہے جولوکل گورننس کے ذریعے مقامی سطح پر لوگوں کے چھوٹے موٹے مسائل کو حل کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہو رہا ہے اگر ایسانہ ہوتا تو نہ تو یہ ادارے ترقی یافتہ مغربی جمہوریتوں میں پروان چڑھ سکتے تھے اور نہ ہی پاکستان، بنگلا دیش اور بھارت میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتے تھے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں معاشرے کے ہر شعبے میں چونکہ گنگا الٹی بہتی ہے اور اس طرز عمل کا اثرچونکہ سیاست اور سیاسی اداروں میں کچھ زیادہ نظر آتا ہے اس لئے ہمارے ہاں سیاست کی بہت ساری کمزوریوں کے ساتھ ساتھ ایک منفی پہلویہ بھی ہے کہ اس گھر کوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کے مصداق اگر ہمارے ہاں جمہوری رویئے پروان نہیں چڑھ سکے ، سیاسی جماعتیں حقیقی معنوں میں عوام کے امنگوں کی ترجمان نہیں بن سکیں۔
جمہوریت اور ووٹ کی طاقت پر لوگوں کا اعتماد بحال نہیں ہوسکا،‘دراصل اس طرز عمل کی بنیادی وجہ پارٹیوں میں نسل در نسل چلنے والا موروثیت کا کلچر ہے جس نے اگر ایک طرف ہمارے سیاسی کلچر کو بے اعتبار بنادیا ہے تودوسری جانب اس کا نقصان جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بے وقعتی کی صورت میں بھی سامنے آ رہا ہے ‘۔یہ کوئی راز نہیں ہے کہ ہمارے ہاں جہاں بلدیاتی اداروں کی داغ بیل جنرل ایوب خان کے پہلی دور حکومت میں پڑی تو وہاں جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے ادوار حکومت میں سب سے زیادہ توجہ ان اداروں کے قیام اور استحکام پر مرکوز رکھی جب کہ اس کے برعکس منتخب جمہوری حکومتیں بلدیاتی اداروں کے قیام اور انہیں مطلوبہ اہمیت دینے سے ہمیشہ احتراز کرتی رہی ہیں جس کی تازہ مثال موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے گزشتہ دنوں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کو دوسال تک ملتوی کرنے کے لئے صوبائی اسمبلی سے قانون سازی کرانا ہے ‘موجودہ برسراقتدار جماعت ہی ایک ایسی جماعت ہے جس کو پاکستان میں اختیارات حقیقی معنوں میں نچلی سطح پرمنتقل کرنے کی خالق جماعت سمجھا جاتا ہے اور جس کا کریڈٹ اسے 2018کے انتخابات میںبھاری کامیابی کی صورت میں مل بھی چکا ہے لہٰذا توقع ہے کہ موجودہ حکومت اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کریگی۔