حکومت چاہتی ہے کہ اقتصادی امور سے متعلق قوانین میں ترامیم کرے تاکہ عالمی ادارے (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے ممکنہ پابندیاں ختم ہونے کا جواز پیدا ہو سکے۔ حزب اختلاف چاہتی ہے کہ صرف اقتصادی قوانین ہی نہیں بلکہ قومی احتساب بیورو (نیب) سے متعلق قوانین میں بھی ایسی ترامیم بیک وقت منظور ہونی چاہئیں جن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خلاف بدعنوانی کی تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی ہمیشہ کے لئے دفن کر دی جائے۔ یوں حزب اختلاف کا تعاون مشروط ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے اصولوں پر کس حد تک سمجھوتہ کرتے ہوئے اُس تعاون کو بحال کرتی ہے جسے عرف عام میں ’سیاسی مک مکا‘ کہا جاتا ہے کہ اِس میں قوانین صرف اور صرف عوام کے لئے اور اِن کا اطلاق بھی صرف اور صرف عوام ہی کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔تازہ خبر یہ ہے کہ حزب اختلاف نے نیب قانون میں ترامیم سے متعلق حکومت کے مجوزہ مسودے کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مجوزہ آئینی مسودہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو بھیج دیا گیا ہے‘ حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں (مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی) نے جس مشروط تعاون کی پیشکش کی تھی‘ اُس کی تمام تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں کیونکہ کچھ بھی تحریری نہیں البتہ حزب اختلاف چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت میں توسیع نہیں چاہتی اور حکومت نے یہ بات تسلیم بھی کر لی ہے لیکن کسی بھی مجوزہ قانون میں ایسی کئی شقیں رکھی جاتی ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا لیکن وہ حزب اختلاف سے تعاون حاصل کرنے کے لئے ایک باعزت طریقے کے طور پر رکھی جاتی ہیں کہ کس طرح حزب اختلاف کی طرف سے تجاویز کو تسلیم کیا گیا ہے۔
اصل بات تو سیاسی قائدین کے خلاف نیب مقدمات و تحقیقات ہیں۔ قبل اَزیں 2019ءمیں تحریک اِنصاف نے نیب قانون میں ترمیم کی تھی ‘ نیب سے متعلق حزب اختلاف کی تجاویز تسلیم کرنے کے بدلے حزب اختلاف حکومت کی ’ایف اے ٹی ایف‘ اور دیگر امور پر قانون سازی کی راہ ہموار کرے گی۔ حزب اختلاف کا زور جن نکات پر ہے اُن میں 1: حکومت نے جو ترمیمی مسودہ تیار کیا ہے اس میں گزشتہ برس کے صدارتی آرڈیننس سے بھی زیادہ متنازعہ دفعات شامل کی گئی ہیں۔ 2: سپریم کورٹ نے نیب چیئرمین کے حوالے سے فیصلے میں جو کچھ لکھا ہے کہ وہ سیاسی انجینئرنگ کر رہے ہیں تو حکومت اس کی مدت ملازمت میں توسیع چاہتی ہے جو عدالتی فیصلے کی توہین ہو گی۔ 3: تحریک انصاف نیب قوانین میں ترمیم کے ذریعے اپنے لوگوں کے لئے ’این آر او‘ لانا چاہتی ہے‘ذہن نشین رہے کہ نیب قانون کے تحت چیئرمین کی مدت ملازمت چار سال ہوتی ہے اور اس میں توسیع نہیں دی جا سکتی جبکہ دیگر دو عہدوں کی مدت تین‘ تین سال رکھی گئی ہے۔ مسودے کے مطابق نیب کسی ایسے شخص کے خلاف کاروائی کرنے کا مجاز نہیں ہو گا جس کا کسی عوامی عہدیدار سے براہِ راست یا بالواسطہ تعلق نہ ہو اور اگر عوامی عہدےدار کے خلاف حکومتی منصوبے یا سکیم سے مالی فائدہ اٹھانے کا ثبوت نہیں تو قواعد و ضوابط کی بے قاعدگی ہونے پر نیب قانون لاگو نہیں ہو گا۔
عوامی عہدیدار کے زیر کفالت یا بے نامی دار نے فائدہ اٹھایا تو نیب قانون لگے گا۔ اس کے علاوہ عوامی عہدیدار کے اثاثے اس کے ذرائع آمدن سے میل نہیں کھاتے تو اصل قیمت کا تعین ڈسٹرکٹ کلیکٹر اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کرے گا۔ اس میں سے جس کی قیمت زیادہ ہو گی‘ اسے درست مانا جائے گا۔ عوامی عہدیدار اور اس کے زیر کفالت کے ناجائز فائدہ اٹھانے سے متعلق ٹھوس ثبوت دینے ہوں گے جبکہ عوامی عہدیدار کے اچھی نیت سے کئے گئے کسی فیصلے پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہو سکے گا۔ حزب اختلاف کی نظر میں نیب قانون میں برابری کا تاثر نہیں۔ نیب قوانین میں ترامیم کا مسودہ گزشتہ سال جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کا تسلسل نظر آتا ہے تاہم اس میں ایک سقم کو دور کیا گیا ہے۔ پہلے ترمیمی آرڈیننس میں اختیارات کے ناجائز استعمال کو ثابت کرنے کے لئے ملزم کے اس کی آمدن سے زائد اثاثہ جات میں اضافہ کو ثابت کرنا ضروری قرار دیا گیا تھا اب صرف مالی فائدہ ہی ثابت کیا جائے گا جو کہ عالمی معیار کے عین مطابق ہے۔مسودے میں بھی پرائیویٹ آدمی پر نیب قانون کے اطلاق کو ختم کرنے جیسی تجاویز کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اب اثاثہ جات کی قیمت کا تعین ڈی سی ریٹ یا ایف بی آر کے ذریعے کیا جائے گا ۔