بڑی عیدکی پھیکی خوشیاں

 مویشی منڈیوں اور ان کی سرِ راہ اندرون ِ شہر خرید وفروخت کے وقت رش کا ہونا درست نہیں ہے خیر سے کچھ ہی دن باقی ہیں بڑی عید کی خوشیاں پھیکی ہو کر دلوں کے جام بھریں گی ‘لوگ لوگوں سے کوشش کر کے نہیں ملیں گے۔ نہ تو ہاتھ ملے گا اور نہ دوسرے کے گلے ملنے کی وہ پر بہار شان ہوگی جو پچھلے سال تھی۔ اب تو کورونا نے دلوں کو اس طرح اداس کیا ہے کہ آدمی گلے تو کیا سامنے والے سے ہاتھ ملا کر پشیمان ہوتا ہے اور کہیں موقع ملے تو پہلی فرصت میں صابن سے ہاتھ دھوکر دل کو اطمینان دلاتا ہے کہ میں کورونا سے پاک ہو گیا ہوں۔ مگر کورونا جو پانچ مہینوں سے ہمارے تعاقب میں ہے اس سے پیچھا چھڑانا اتناآسان نہیں‘اگرچہ کہ ارضِ وطن میں یہ وائرس لاکھوں کو لگا ہے اور ہزاروں اس میں دوسرے جہان کو چلے گئے مگر انسان تو اس لئے بھی انسان ہے کہ وہ دوسرے کی بری حالت دیکھ کر سبق نہیں سیکھتا ‘پھر یہ بھی اس کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ خود تجربہ کرنا چاہتا ہے جب تک اس کے ساتھ برا نہ ہو وہ سیدھے راستے پر نہیں آتا‘یہی وجہ ہے کہ پشاور کی سڑکیں ان دنوں جانوروں کی منڈیاں بن چکی ہیںجہاں روزانہ گائے بکری اور دنبوں بیلوں اور بکروں کی خرید وفروخت جاری ہے ۔ اب کون شہر سے باہر جائے اور وہاں جانور خرید کر اسے گھسیٹ کر شہر تک اپنے گھر لائے۔ نہ تو کسی کے منہ پر ماسک ہے اور نہ کسی کے ہاتھوں پر دستانے چڑھے ہیںاور نہ ہی یہ لوگ ایک دوسرے سے گز بھر کے فاصلے پر ہیں ۔سب اکٹھے قریب قریب اور کھلے منہ جانوروں کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انھیں پیار کر کے ان کی رسی کو شوقیہ ہی سہی پکڑ کر اس کا مول پوچھتے ہیں۔ ان کو کورونا کا ڈر ہی نہیں۔جانوروں کی منڈیاں تو اس بار شہر سے باہر منتقل کی گئی ہیں مگر اس اقدام کامزہ بھی نہیں ۔

 وہاں منڈیوں میں کون سی احتیاط برتی جاتی ہے ۔وہی لاپرواہی اور غیر ذمہ داری ۔ انھیں اندازہ نہیں کہ وہ جانور تو گھر میں لے کر گھسیں گے مگر ساتھ ہی اس نامراد وائرس کو بھی اپنے سنگ لائیں گے۔اندورنِ شہر ہو کہ شہر کے ان سولہ دروازوں کے باہر کا کھلا ماحول ہو سڑکوں پر گائے بکری اور دیگر جانور فروخت ہو رہے ہیں مگر ان سے پوچھیں جو تماشا کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ وہ خرید و فروخت کایہ منظر اپنی آنکھوںسے دیکھ کر ایک طرح دلی خوشی محسوس کرتے ہیں۔۔مگر انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس قسم کی لا ابالی حرکات نہ صرف بڑوں کو بلکہ خاص طور پر چھوٹوں کے لئے وائرس کو اپنے ساتھ چمٹانے کی وجہ بنتی ہے۔چونکہ کورونا میں اب کافی کمی آئی ہے اور مریض روز بروز کم ہونے لگے ہیں۔ اس لئے اس خبر کو سن کر ہمارے بھائی لوگ جو سڑکوں پر نہیں نکلتے تھے وہ تو اب خوب دھمال مچا رہے ہیں ۔دھما چوکڑی مچی ہے اور مویشیوں کے نام پر خود الٹی سیدھی حرکات کرنے میں مصروف ہیںجو بازار اور سڑک کے کنارے بکریوں کی فروخت کے نام پر مشہور تھے وہاں تو اب گائے اور بیل بھی سرِ راہ بک جاتے ہیں ۔ خریدار ایک کے بجائے دو بیل بھی چھ لاکھ میں خرید کر فخر سے سر اونچا کئے اپنے گلی محلوں کو لوٹ رہے ہیں۔

ان بیلوں کو جھانجھریں پہنائی جائیں گی اور وہ چھن چھنا چھن گلی کوچوں میں سے گزریں گے۔اگر کورونا کی بیماری ہے تو اس کو سنجیدہ لینا چاہئے۔ یہ وائرس لگنے والا مرض ہے ۔ جس کی دوا ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی ۔جب اس کی ویکسین بازار میں آ جائے تو پھر اس دوائی کے بل بُوتے پر غلط ہی سہی یہ لوگ بازاروں میں اور زیادہ بھیڑ بنائیں گے۔ جس کی جیب میں رقم ہے اسے درست معلوم ہوگا ۔مگر دوا کامطلب یہ نہیں کہ ہم رقم دے کر بیماری خرید لیں۔لوگ تو خرچہ کر کے بیماری کو اپنے پاس سے بھگاتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے ۔مویشی منڈیوں میں ویسے بھی وہ رونق نہیں جو ہونی چاہئے تھی۔ کیونکہ اگر آدھی آبادی ناسمجھ ہے تو شہر کے آدھے لوگ صحیح معنو ںمیں پڑھے لکھے اور سمجھدار ہیں۔وہ اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے انھوں نے اس بار خود قربانی کرنے کی بجائے دوسروں کے ساتھ مل کر حصہ ڈال کر قربانی کرنے کا پروگرام بنایا ہے ۔مگر کیا کریں دوسری طرف بعض بہت زیادہ سمجھ دار لوگ حصے والی قربانی کے خلاف باتیں کرتے ہیں ۔حالانکہ ہنگامی حالات میں نا پسندیدہ اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔ اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ انسان اپنی زندگی کو آسان بنائے اور بیماریوں اور تکلیفات سے دور رہے ۔