کچھ سمجھ دار ‘ کچھ زیادہ سمجھ رکھنے والے اور پھر کچھ بہت زیادہ سمجھدار دانشور سب کچھ بھول بھلا کر ان گرمیوں کے موسم کی شدت کو کم کرنے کے لئے پہاڑی مقامات کا رخ کر رہے ہیں جہاں برف گرتی ہے جہاں بادل پہاڑوں کی چوٹیوں کو چوم چوم لیتے ہیںجہاں فطرت نے پہاڑوں کو برف کی دستارِ فضیلت باندھی ہوئی ہے۔ وہاں یہ لوگ نہ صرف خود دوستوں کے ساتھ بلکہ اپنی فیملی اور بچوں کو لے کر گئے ہیں خوب مزے میں گلیات کی چڑھائیاں چڑھ رہے ہیں ۔ دوسری طرف حکومتی ایوان ِ مرمریں سے بیانات کا سلسلہ جاری ہے کہ ہم نے سیاحت پر بدستور پابندی لگا رکھی ہے اور کوئی بھی سیر سپاٹے کے لئے ان علاقوں کا رخ کسی طور نہ کریں‘مگر فیس بک کو ذرا دیکھیں ‘ تصویروں اور مووی کلپ کی وہ سج دھج ہے کہ بندہ دیکھ کر کہ پریشان ہو‘ الٹا جی چاہتا ہے کہ ہم بھی سیاحتی یخ بستہ مقامات پر بادلوں کے سنگ بہتے ہوئے چشمے اور گرتی ہوئی آبشاروں کے نیچے مقبول عامر کا یہ شعر دہرائےں کہ ” یہی چنار یہی جھیل کا کنارا تھا۔ یہیں کسی نے میرے ساتھ دن گزارا تھا“ ۔ان دنوں جھیلوں کا رخ کرنے والے خواہ سیف الملوک ہو یا شنگریلا جھیل کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ نتھیا گلی میں سرخ شرٹ پہن کر گھوم آتے ہیں ۔ وہاں کی مقامی آبادی سے گھل مل جانے کا بہانہ بنا کر اپنے پسندیدہ مقامات پر وقت گزاری کرتے ہیں۔ باوا جی اگر نہیں جانا تو کسی نے نہیں جانا ۔تمام لوگ شہری ہیں او رانسان ہیں جن کو کورونا ہو سکتا ہے ۔ خواہ وہ بادشاہ ہے یا بادشا ہ کا مشیر ہے ۔میںنے دوست سے پوچھا کہ آپ تو فیس بک پر کالام میں ٹراٹ مچھلی پکاتے ہوئے پائے گئے ۔ آپ تو سمجھدار ہیں آپ نے ایسا کیوں کیا۔
انھوں نے کہا خان جی ان کو منع کریں جو ان سیر بینوں کو پانچ سو کا نوٹ لے کر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں ہمارے ہاں ہر قسم کی پابندی لگتی ہے مگر اس پابندی کی ہر قسم کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ اگر شاپر بیچنے سے منع کیا گیا ہے اور شاپروں کی سپلائی بند ہے تو پھر بازاروں میں اپنے جاننے والوں کو پرانے والے مضبوط شاپر کیوں بیچے جا رہے ہیں ۔ جب انڈیا نے ہمارا پانی روکا تو سابق چیف جسٹں نے حکم دیا کہ ہم ان کی نشریات روک دیں گے سو دکانوں پر سے ریسیور اٹھا دیئے گئے ۔اب جہاں ڈش نہیں لگتااس شہری علاقے میں انڈین نشریات کیبل پر نہیں دکھائی جاتیں۔ مگر ہواں اوردریا کے پانی کو پرندوں کو سرحد عبور کرنے سے کون روک سکتا ہے ۔اسی طرح ساری کی ساری نشریات بازارمیں دکانوں پر پہنچ رہی ہیں ۔ آدھے انچ مربع کے صرف چھوٹے سے میموری کارڈ میں ہمسایہ ملک کی دس فلمیں ڈلوا کر گھر لے آتے ہیں۔دکانداردس فلموں کے زیادہ سے زیادہ سو روپے لے گایا پچاس بھی لے لیں گے۔ ریسیور پچھلے دروازے سے اب تک فروخت ہو رہے ہیں ۔ باہر دکان میں کچھ اور بک رہاہے اور اندر اندر سب کچھ برائے فروخت ہے ۔جب تک عوام میں خود شعور پیدا نہ ہو وہ اس قسم کی پابندی پر نہ تو عمل کریں گے اور نہ ہی اس کی پروا کریں گے ۔ یہاں کون کون سی پابندی نہیں لگی مگر سب فروخت ہو رہاہے ۔چرس افیون آئس ہیروئن شراب پر پابندی ہے مگر خوب ڈھول تماشے سے فروخت ہو رہی ہے ۔
سو ہر قسم کے سرکاری عہدیدار خوب آشکارا ہو کر اس کورونا کے عہد میںبادلوں سے ہاتھ ملانے ان کے بیچ دو گام چلنے کے لئے شوق در شوق اور جوق در جوق آپس میں جوک در جوک اڑے چلے جاتے ہیں۔ جو لوگ پشاور کے ہیں اور وہا ںاپنے مکانات خرید رکھے ہیں وہ تو جائیں گے پھر کسی نہ کسی طرح حیلے بہانے جیسے پہلے جن کتابوں پر پابندی ہوتی تھی انڈیا سے ہمارے ہاں سمگل ہو کر آتی تھیں۔ ان کی فلموں کو یہاں چلانے پر پابندی تھی مگر یہاں ایک فلم کی وی سی آر والی تین بڑی کیسٹیں جیسے آج کے تین ٹیبلٹ موبائل ہوں اس سائز میں آتی تھیں ۔یہاں چلتی تھیں چلائی جاتی تھیں ان کو کون روک سکا ہے۔ بلکہ یہاں پشاور میں جن علاقوںمیں کیبل لگانے پر بعض ٹھیکیدار اپنی سی پابندی لگاتے ہیں علاقہ مکینوں کی گواہی کے مطابق خود ان کے گھروںکی چھتوں پر ڈش اٹھ اٹھ کر اپنا ٹھکانہ بتلا رہے ہیں۔ آج ڈیجیٹل زمانے میں کوئی کسی کی نشریات کو کسی کی ہوا کو کسی دریا کے پانی کو کسی ملک کے پرندوں کو روک سکا ہے کہ وہاں نہ جا او روہاں کے پنچھی یہاں نہ آئیں؟۔ اس کےلئے ذہن کے دور کسی گوشے میں کوئی نہ کوئی رعایت رکھی جائے تو بہتر ہے ۔