حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں کورونا وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں قریب 80فیصد کمی ہو چکی ہے اور کورونا وبا سے نئے متاثرین کی تعداد میں بھی اضافہ نہیں ہو رہا۔ صرف ایک مہینہ قبل (جون 2020ئ) میں کورونا وبا اپنے عروج پر تھی جب ہر روز اوسطاً 150 اموات ہو رہی تھیں جو رواں ماہ کے آخری ہفتے کم ہو کر 24 رہ گئیں۔ جب کورونا وبا اپنے عروج پر تھی تو اُس وقت پاکستان میں متاثرہ افراد کی تعداد 2 لاکھ74 ہزار سے زیادہ تھی اور اب جبکہ اِس میں ماضی کی طرح تیزی سے اضافہ نہیں ہو رہا تو اہل پاکستان کے لئے اِس سے زیادہ کوئی دوسری اچھی خبر نہیں ہو سکتی لیکن اصل ضرورت کورونا وبا کو روکے رکھنا ہے اور ایسے حالات و اسباب کا تدارک کرنا ہے جس سے یہ وبا دوبارہ سے نہ پھیلے کیونکہ کورونا وبا موجود تو ہے لیکن اِس کے پھیلنے کا عمل بڑی حد تک رک چکا ہے اور اِس کے کئی عوامل میں حکومت کی حکمت عملی‘ خاص کرعوامی طبقات کا تعاون شامل حال رہا لیکن پاکستان میں کورونا وبا کا مستقبل کیا ہوگا اِس کا تعین چند روز بعد سے شروع ہونے والے عید الاضحی کے تہوار اور اِس کے بعد محرم الحرام کے پہلے عشرے کے دوران عوامی روئیوں سے ہوگا کہ اگر اِن دونوں مواقعوں پر احتیاط نہ برتی گئی تو طبی ماہرین کی جانب سے اِس اندیشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جس طرح عیدالفطر کے فوراً بعد کورونا وبا سے متاثرہ افراد اور اِن متاثرہ افراد کی اموات میں اضافہ ہوا تھا تو خدانخواستہ کورونا وبا پھر سے پھیل جائے گی لہٰذا کورونا کے خطرے سے آگاہ رہتے ہوئے اِس کے منفی نتائج اور اِس کے وار سے بچنے کی ضرورت ہے۔
عید الفطر سے قبل ماہ رمضان المبارک کے پہلے عشرے کے دوران حکومت نے اعلان کیا تھا کہ آخری عشرے میں کاروباری سرگرمیوں کو بحال کرنے کی مشروط اجازت دی جائے گی لیکن عوام بڑی تعداد میں ازخود اور بنا احتیاط ’عید کی خریداری‘ کے لئے نکل پڑی۔ تاجروں دکانداروں اور دیگر کاروباری طبقات نے اپنے مالی مفادات کے پیش نظر کورونا سے بچاو¿ کی حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کیں بلکہ درپردہ رہتے ہوئے کورونا وبا سے متعلق حکومت کے اقدامات بارے شکوک و شبہات پیدا کئے گئے۔ ایک وقت میں کورونا وبا کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق سروے کیا گیا تو ملک کے صرف پچیس فیصد لوگ اِسے خطرہ سمجھتے تھے لیکن عیدالفطر کے بعد یہ تعداد بڑھ کر ساٹھ فیصد سے زیادہ ہوگئی تھی اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کورونا سے بچنے کے لئے احتیاط اُنہوں نے بھی شروع کر دی جو پہلے اِس حقیقت کا انکار کرتے تھے حکومت کی جانب سے اجتماعات میں شرکت سے متعلق قواعد و ضوابط (ایس اُو پیز) موجود و برقرار ہیں‘ جن پر عمل درآمد وقت کی ضرورت اور وبائی مرض سے بچنے کے لئے حالات کا تقاضا ہے بھلائی اِسی میں ہے کہ خود کو پابندیوں کا پابند کر یعنی احتیاط کے ساتھ معمولات زندگی ادا کئے جائیں عبادات ہوں یا دنیاوی معاملات غیرضروری طور پر مہم جوئی کی بجائے بہرصورت کورونا وبا سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے ہی میں دانشمندی ہے۔
عیدالاضحی سے چند روز قبل اور عیدالاضحی کے چند روز بعد (پانچ اگست) تک جن شہروں کاروباری سرگرمیاں ’لاک ڈاو¿ن‘ کے تحت معطل کی گئی ہیں اگر یہ فیصلہ پہلے کر لیا جاتا تو آخری لمحوں میں اِس طرح کے سخت فیصلوں کی ضرورت پیش نہ آتی اور عوام کے لئے سمارٹ لاک ڈاو¿ن کا تسلسل برداشت کرنا زیادہ آسان رہتا لیکن ایک ایسے وقت میں جبکہ چھوٹے بڑے اجتماعات و تقاریب اور ہر قسم کی کاروباری سرگرمیاں بنا احتیاط بھی بحال کرنے کی غیرتحریری اجازت دی گئی اور حکومت کی جانب سے خاموش تماشائی بننے کا مظاہرہ کیا گیا لیکن اچانک سختی کی جا رہی ہے تو اِس سے حکومت کی مقبولیت میں کمی آنا ایک فطری امر ہے اِس سلسلے میں نئے عزم کے ساتھ ’آگاہی پروگرام‘ شروع کرنا چاہئے جس میں صرف اگر عام شہریوں کو یہ نکتہ سمجھا دیا جائے کورونا وائرس عالمگیر وبا کی صورت ظاہر ہو چکا ہے‘ اِسکا علاج دریافت نہیں ہوسکا اور اِس سے بچنے کی واحد ممکنہ صورت احتیاط ہے تو روک تھام کے اقدامات کامیابی سے ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ دانشمندی نہیں ہوگی کہ ایک مرتبہ کورونا وبا کے پھیلنے کا زور ٹوٹنے کے بعد اِسے دوبارہ سے پھیلنے دیا جائے! موقع محل اور مناسبت طے کرنے سے پہلے کورونا سے بچاو¿ کی احتیاطی تدابیر پیش نظر رکھی جائیں اور اجتماعی طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے۔