کھانے میں احتیاط

 ایک وقت وہ بھی تھا کہ ہم کھانے کے لئے بیٹھتے تو سب کھالیتے اور کھا لیتے تو پھر کھاتے ۔ کوئی پوچھتا تو اپنی دائیں پسلی پر ہاتھ رکھ کر کہتے ابھی تو یہ طرف بھرنہیںسکی۔اس دوران میں میزبان اگر پانچ روٹیاں اور لاکر پوچھتا کہ اور روٹی تو نہیں چاہئے تو ہم جھٹ کہتے چاہئیں کیوں نہیں ۔ رکھو یہاں سب رکھو۔دوست یار مل کرصبح ورزش کر کے یکہ توت دروازے کے باہر وزیر باغ سے گھروں کو لوٹتے تو یکہ توت کے اندر طورے پانچے والے کے پاس بیٹھ کر پانچے کھاتے اور خوب کھاتے ۔ پھر اگر پیالے میںشوربہ بچ جاتا تو وہ پی لیتے تھے۔ لکڑ ہضم پتھر ہضم کا زمانہ تھا یعنی جوانی تھی اور کس قسم کا اندیشہ نہ تھا کہ اس سے پیٹ نکل آئے گا ۔پھر مزا یہ کہ توند نکلتی تو بھی نہ تھی۔ورزش کرو نہ کرو یہ عمر ہی ایسی ہے کہ اس میں بھوک بھی بہت لگتی ہے اور پھر کھانا پینا سب کچھ ہضم ہو جاتا ہے او ر اس کے ہاضمہ کے لئے کسی چورن کسی پھکی یا دوا کی ضرورت نہ پڑتی۔سنا ہے کہ اتنا کھا¶ کہ تمہیںاٹھاتا پھرے اتنا نہیںجسے تم اٹھاتے پھرو۔ پھر یہ بھی کہ بعض لوگ زندہ رہنے کے لئے کھاتے ہیں اور بعض تو کھانے کے لئے زندہ ہیں ۔ہم اسی طبقہ سے تعلق رکھتے تھے جو کھانے کے لئے زندہ ہیں۔شادی بیاہ میں کھانے تقسیم ہونے سے پہلے میز پر خوانچہ کے لئے چار آدمیوں میں اگر کوئی ایک کرسی خالی رہ جاتی تو شکر کرتے اور اگر ماحول دیکھ کر اندازہ ہوتا کہ لازمی کسی نہ کسی کو بٹھانا ہے تو کسی بچے کو جو کم ہی کھائے گا آواز دے کر پیار سے چوتھی کرسی پر اپنے پاس بٹھا دیتے ۔بلکہ خود بھی کبھی اس خوانچہ کے لئے اس رشتہ دار کے ساتھ بیٹھتے جو کھانے کے دوران میںبغیر شرمائے اور چاول منگوا تا ہے اور منگوا سکتا ہے ۔پھر کوفتہ کا پیالہ بھی اور منگوا تا بلکہ وہ کوئی بھی چیز انتظامیہ میں کھڑے کسی بھی فرد کو آواز دے کر بلاجھجک منگوا سکنے کی قدرت رکھتا تھا۔

 وجہ یہ تھی کہ ہمارے وہ دوست بہت بے باک تھے ۔ ا ن کو رشتہ داری کے اس اکٹھ میں کسی کھانا تقسیم کرنے والے کا انکار کرنا گویا محفل میں اپنے لئے مصیبت ڈھونڈنے والی بات تھی۔ بلکہ ہمارے عزیز اس قدر پر اثر اورزورآور تھے کہ اگر دوسری بار کوئی ڈش لے کر نہ آئے تو خود جا کرجہاں دیگیں کھولی گئی ہیں وہاںسے میٹھے چاولوں کی ایک اور پلیٹ بھر لاتے۔ ہمارا ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا ہمارے لئے دلی اطمینان کا باعث ہوتا۔ بلکہ کھانا شروع ہونے سے پہلے نگاہیں ان کو ڈھونڈتیں اوران کے تعاقب میں رہتیں پھر ان کے ساتھ مل کرکھڑے ہو جاتے کہ اب انھیں کے ساتھ کھانے کے لئے بیٹھیں گے ۔ کمال یہ ہے کہ خود انھیں بھی ہماری بری نیت کے بارے میں خوب پتا ہوتا او رہم خود بھی ان کے ساتھ کھانے کے وقت کی شمولیت کے مقاصد کے بارے پہلے بتلا دیتے ۔ اس پر وہ مہربان خود کہتے کہ بس تو پھر کہیں آگے پیچھے مت ہونا میرے ساتھ رہنا۔ یہ وہی دوست ہیں جن کے ساتھ وزیر باغ سے ورزش کرکے لوٹتے تو پانچے کھاکر اس کاشوربہ تک پیتے ۔ ہائے نہ تو اب وہ وزیر باغ ہے اور نہ دوست ۔ سب لوگ موتیوں کی مالا کی طرح بکھر گئے ہیں ۔ کوئی کہاں اور کوئی کہا ںہے ۔

 اب تو حال یہ ہے کہ ایک روٹی بھی کھا لو تو ہضم نہیں ہوتی اور صبح نہار منہ ہاضمہ اور دل کی جلن دور کرنے والا کیپسول نہار منہ کھانا پڑتا ہے ۔ پھررات کو تو لازمی سونے سے پہلے کراچی سے لایا ہو ا چورن کھاتے ہیں ۔ پھر دن بھر میں جب موقع ملے پھکی کی ہتھیلی چاٹ جاتے ہیں۔اب تو دو نوالے زیادہ کھا لو تو پیٹ پھول جاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ سانس کی روانی میں خلل ہے ۔معدے کا اپھارن محسوس ہو تو کھانے کو جی نہیں کرتا ۔ پھر رات کو تو کھانا اب کچھ الٹا پلٹا کام معلوم ہوتا ہے اس لئے قریب کے عزیزوں کو معلوم ہے کہ یہ شخص رات کو کھانا نہیں کھاتا۔ بنا بھوک کے کھا تو لیں مگر اس کو ہضم کون کرے ۔ رات بھر انگڑائیاں لیتے رہیں اور پہلو تبدیل کریں ۔ا س بے چینی سے اچھا ہے کہ تھوڑی بھوک ہو اور بندہ آسانی کے ساتھ سو تو سکے ۔اب تو کہیں شوگر کا مسئلہ ہے کہ فلاں چیز نہیں کھانی بلکہ شوگر میں تو سمجھو سب کچھ نہیں کھانا مگر ہم پھربھی ڈاکٹر کی ہدایات کوپھلانگ کر چوری چھپے کھا ہی جاتے ہیں۔ مگر زیادہ نہیں کھا سکتے ۔ گھروالوں میں سے کوئی منع کیوں کرے۔ کسی کی شامت تو نہیں آئی۔ پھر اگر شوگر والی چیزوں کو چھوڑ دیں تو ہائی بلڈ پریشر والی اشیاءکوبھی چھوڑ دیں یہ سراسر ظلم ہے اور ہم یہ ناروا سلوک ہونے نہیں دیں گے۔اس لئے بد پرہیزی تو کرنا پڑتی ہے ۔کیا ہوا جہاں ایک گولی کھائیں گے وہا ںبد پرہیزی کے بعد دو گولیاں حلق سے اتار لیں گے ۔ اصل میں عمرکا تقاضا ہوتا ہے کہ بندہ جوانی سے دورآگے قدم رکھے تو اس عمر میں پیٹ کا بڑھ جانا اور توند کانکل آنا قدرتی ہوتا ہے کیونکہ پیٹ کے پٹھے جو جوانی میں کھنچے ہوئے رہتے ہیں بڑھاپے کے شروع میں ڈھیلے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔