ٹک ٹاک

 امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی جنگ کا نیا محاذ ’ٹیکنالوجی‘ سے متعلق ہے‘ جس کا مقصود یہ ہے کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کو ٹیکنالوجی میں برتری حاصل نہیں ہونی چاہئے اور اِس کی تازہ ترین مثال مختصر دورانئے کی ویڈیوز کا تبادلہ کرنے والی موبائل فون ایپ ”ٹک ٹاک پر پابندی کا فیصلہ ہے جو ’اکتیس جولائی‘ کو سامنے آیا اور تب سے اَمریکہ کے صدر اور امریکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اِس بارے میں قریب ہر روز کوئی نیا الزام بصورت تبصرہ سامنے آتا ہے جس میں تازہ ترین ”جاسوسی“ کرنے کا الزام ہے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ’بائٹ ڈانس نامی چینی کمپنی امریکی صارفین کے کوائف چین کی حکمراں جماعت کو فراہم کر رہی ہے جبکہ ٹک ٹاک کی جانب سے اِس الزام کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکہ کے ”ٹک ٹاک“ صارفین کے کوائف چین میں نہیں بلکہ امریکی قانون کے مطابق امریکہ ہی میں محفوظ رکھے جاتے ہیں اور چین کی کمپنی امریکی قوانین کے مطابق عمل درآمد کر رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے خوفزدہ امریکہ کی موجودہ سیاسی قیادت چاہتی ہے کہ چین کی وہ تمام کمپنیاں خرید لی جائیں جو امریکہ میں مقبول ہیں۔ اِس سلسلے میں ’مائیکروسافٹ‘ کمپنی کی سربراہ ستایا نادیلا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے بارے جو مختصر تفصیلات مائیکروسافٹ کی جانب جاری کی گئی ہیں۔

 اُن کے مطابق مائیکروسافٹ کی خواہش ہے کہ وہ پندرہ ستمبر دوہزاربیس تک ”ٹک ٹاک امریکہ“ خرید لے اور اِس سلسلے امریکہ کے صدر کو تمام ممکنات اور کاروباری فوائد سے آگاہ کر دیا گیا ہے‘ جنہیں صیغہ¿ راز میں رکھا گیا ہے۔کیا تفریح طبع سے متعلق مواد کی تشہیر کرنے والی کوئی ویب سائٹ یا موبائل فون ایپ کسی ملک بالخصوص واحد عالمی طاقت کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہو سکتی ہے؟ ٹک ٹاک کمپنی نے اپنے اوپر عائد کئے جانے والے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے نہ تو ٹک ٹاک پر چینی حکومت کا کنٹرول ہے اور نہ ہی حساس معلومات کا چین کے حکام کے ساتھ تبادلہ کیا جاتا ہے۔ امریکی خبررساں چینل فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک کے خلاف کاروائی ’قومی سلامتی کو درپیش خطرات کی ایک وسیع فہرست کے تناظر میں کی جا رہی ہے‘ ایسے خطرات جو چینی کمیونسٹ پارٹی سے منسلک سافٹ وئیرسے درپیش ہیں۔ امریکہ میں بہت سے کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان کمپنیوں میں سے کچھ امریکہ کی معلومات چین کی حکومت کے ساتھ تبادلہ کر رہی ہوں۔

 ان معلومات میں چہرے کی شناخت سے متعلقہ کوائف گھروں اور اداروں کے ایڈریس اور فون نمبرز شامل ہو سکتے ہیں۔“ مائیک پومپیو کے بقول ”صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ بہت ہو چکا ہے اور اب اِس مسئلہ کو حل کریں گے۔“ ذہن نشین رہے کہ اکتیس جولائی کے روز صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ جلد ہی ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ٹک ٹاک کے امریکہ میں 8کروڑ سے زائد صارفین ہیں۔ یہ ایپ چین کی کمپنی ’بائٹ ڈانس‘ کی ملکیت ہے اور امریکہ میں اسے استعمال کرنے والے بیشتر صارفین کی عمریں 20سال سے کم ہیں۔دنیا بھر میں مختصر دورانئے کی ویڈیوز کا تبادلہ کرنے والی سوشل میڈیا ایپ ’ٹِک ٹاک‘ کی مقبولیت میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اور اب اس کے پچاس کروڑ سے زیادہ فعال ممبران ہیں جن میں آٹھ کروڑ کا تعلق امریکہ سے ہے تاہم امریکہ کے بیشتر سیاستدان اس بات سے خائف ہیں کہ ’ٹک ٹاک ایپ‘ کے چینی مالکان امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں کیونکہ مذکورہ ایپ کے ذریعے امریکیوں کی ذاتی معلومات جمع کر کے چرایا جا سکتا ہے۔

امریکی حکام نے بھی سلامتی کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ میں ٹِک ٹاک کے آپریشن کی مائیکروسافٹ کو فروخت سے‘ جو کہ لِنکڈاِن کی مالک ہے‘ اس بڑی کمپنی کو سوشل میڈیا پر بڑی حیثیت مل جائے گی‘ ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ کئی افراد نے صدر ٹرمپ کے بیان کو آڑے ہاتھوں لیا تھا‘ ان میں فیس بک کے سابق سربراہ ایلِکس سٹیمو بھی شامل ہیں جو یہ سوال کرتے ہیں کہ آیا ٹک ٹاک سے ملکی سلامتی کے لئے خطرات پیدا ہوتے ہیں؟ اُنہوں نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں کہا تھا کہ ”یہ سب کچھ مضحکہ خیز بنتا جا رہا ہے۔ دو ہفتے پہلے تک ایک امریکی کمپنی کی سو فیصد فروخت شاید ایک مسئلے کا زبردست حل سمجھا جا رہا تھا اور بالآخر انٹرنیٹ پر معلومات کے ڈیٹا‘ اعداد و شمار کے تحفظ سے متعلق کسی بھی معقول خدشات کو دور کرتا۔ اگر وائٹ ہاو¿س اس فروخت کے معاہدے کو ختم کرتا ہے تو اس کا ملکی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“