اپنے شہر کا موسم سہانا نہیں تھا۔گرمی کی شدت اور ایک عجیب سی بے قراری۔ چند اپنے گھل مل گئے ۔ برفانی چوٹیوں کی جانب اپنا قافلہ لے جانے کی ٹھان لی۔ مجھے نہیں جانا تھا مجھ سے جایا نہیں جاتا۔ وہ سنا توہوگا آپ نے مصرع کہ ” حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے“۔مگر ان سنگ دلانِ شہر نے اپنے پیار ومحبت میں بہلا پھسلا کر اپنے جال میں پھنسا دیا ۔ آخر کار ہم گئے نہیں لے جائے گئے۔کیونکہ ہم تو خود شہریوں کو اپنے کالموں میں ان دنوں کی وبا کے عالم میں منع کرتے ہیں کہ پہاڑی مقامات کے آسیب سے دور رہیں۔ پھر ایسے میں ہم خود اگر وہاں گلی گلیات میں فوٹو سیشن کرتے ہوئے لال شرٹ میں پائے گئے تو اپنے کالم پڑھنے والوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ کیونکہ دوسروں کو نصیحت اور خود مسٹر فصیحت اچھا نہیں۔ اب حکومت نے ڈنڈااٹھایا ہے تو غلط نہیں کیا۔ کورونا وائرس نے لنکاڈھا دی ہے قیامت مچا دی ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا میل جول اور اکٹھ اس وائرس جیسے چیتے کی رال ٹپکاتا ہے کہ وہ اس بھیڑبھاڑ میں گھس کر سینکڑوں کو اپنی گرفت میں ایک جست پنجوں میں جکڑ لے اور چاروں شانے چت کر کے ہسپتال کے سٹریچر پر ڈال کر کورونا وار ڈ میں منتقل کر کے ان کو ونٹی لیٹر لگا دے۔اگر ریاست کسی اقدام کی ٹھان لے تو کوئی مائی کا لعل اس کے خلاف نہیں چل سکتا۔
یہ تو کچھ باغباں جب آسمان کے بادلوں سے جھلکنے والی کڑکتی بجلیوں سے مک مکا کر لیتے ہیں توپھر چمن کی تباہی یقینی ہو جاتی ہے ۔اس میں قصور ان بھائی بندوں کا بھی ہے جو عید سے پہلے اپنی فیملیوں کو چناروں کے دیس لے گئے اور وہاں سے اپنے ٹور کی تصویریں بمعہ اہل و عیال فیس بک پر ارسال کیں ۔ جس کی وجہ سے وہ شہری جو میدانی علاقوں میں دھوپ کی تمازت میں جھلسے جاتے تھے ان کی تو آنکھیں چندھیا گئیں۔ اس طرح انھیں ایک طرح کشش دلائی گئی ۔ سو وہ عید پر پروگرام بنا بیٹھے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ جب سیر کو نکلے تو ناکہ بندی پر دھر لئے گئے ۔کچھ تو بھاگ گئے اور کچھ پولیس کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتے رہے ۔اب اتنی فورس کہاں سے آئے جو دو ایک سو باوردی کارکن ہزاروں کو گھیر گھار کے تھانے لیں آئیں۔جو نکلے نکل گئے جو سوئے اتفاق پھنس گئے سو واپسی کی راہ چل پڑے۔مگر گھر سے نکلنا تو آسان رہا اور واپس آنا اور پھر وہ بھی آدھے راستے سے بہت مشکل ہو گیا ۔کل کے نکلے ہوئے لوگ بال بچوںسمیت گرمی کی شدت میں اپنی منزل سے بہت دور گاڑیوں کے رش میں پھنسے ہیں ۔
جس ریسٹ ہا¶س کی میں نے بات کی وہ اس یخ بستہ بڑے شہر میںگلیات کی طرف جانے والا موڑ کاٹتے ہی تھوڑ ی دور چل کر آتا ہے ۔وہا ںہم نے رات گذارنا تھی اور پھر کسی گلی کی جانب خواہ پتلی گلی کیوںنہ ہو نکلنا تھا۔اوپر تو درجن بھر گلیاں ہیں ٹھنڈی ٹھار ۔بادلو ں اور ہوا¶ںکے سنگم پر کھڑی اورانتظار میں ۔ ہم ریسٹ ہا¶س تک تو پہنچ گئے ۔ یہاں کا موسم بھی شاندار تھا۔ بوندا باندی اور یخی نے تو ایک سماں باندھ دیاتھا۔ریسٹ ہا¶س کا انچارج ہمارے انتظار میں تھا ۔ کھانا تو راستے میں کسی پہاڑی کے دامن میں ایک ہوٹل میں جیسے تیسے کھا لیا کہ یوں لگا کھانا نہیں دھوکا کھایا تھا۔ریسٹ ہا¶س میں خانساماں نے کھانے کا پوچھا تو ہم نے چائے کا کہہ دیا۔ ہمراہ آئے ہوئے تھکے ہارے جلد بستر پردراز ہو کر نیند کی وادیوں میں کھو گئے۔ پھر ہم نے صبح فارورڈ جانا تھا۔
لیکن میں نے نیٹ پر راستوں کی بندش کا سنا تو وہیں دبک کر بیٹھ گیا۔ مجھے ریسٹ ہا¶س کی اس رات میں اپنے آپ سے بہت باتیں کرناتھیں جو میں اپنے شہر کی دھوم دھام اور دھوم دھڑکے والی دھما چوکڑی مچا دینے والی زندگی میں نہیں کرسکتا تھااس کیلئے ایک ہو کا عالم چاہئے جو یہاں ریسٹ ہا¶س میں بھرپور موجود تھا۔ میں وہاں جاگتا رہا اور باقی سو گئے نیند کہا ں آنے والی تھی شاید وہاں کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں صبح عرضی دینا تھی کہ میرے حصے کی نیند مجھے نہیں آ رہی یا تو اپنے گھر کے بستر سے الگ ہونے کا کارن تھا سو میں باہر لان کی یخی میں درختوں کے بیچ پھرتا رہا۔سوچتا رہا سمجھتا رہا مجھے اس تنہائی او ریکسوئی والی فراغت میںبہت کچھ سمجھ آنے لگا تھا۔ میںنے گلیوں کی خاک چھاننے کے لئے نہیں آنا تھاسو موقع ملا تو میں ریسٹ ہا¶س کی تنہائی کومزید انجوائے کرنے کے لئے وہیں رک گیااور جن کے ساتھ لایا گیا وہ میری ضد کے آگے کہ مجھے کورونا نہیں کروانا بے بس ہوئے اور وہ پہاڑیوں کی سیر کو پولیس کے ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ والی آنکھ مچولی کھیلنے چلے گئے۔