5اگست ،یوم استحصال

 پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے گزشتہ روزآزادکشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دورے کے موقع پر اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو ہرگز مایوس نہیں کرےگا اور ہندوستان سے آزادی کےلئے ان کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت ہرقیمت پر جاری رکھی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ایل او سی کے اس دورے کا مقصد مظلوم کشمیریوں اور ان کے اہل خانہ کےساتھ اظہار یکجہتی کرنا تھا جنہیں روزانہ بھارتی مظالم اور بلا اشتعال فائرنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے انہوں نے کہاکہ ہم ان کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ پاک فوج، پاکستانی قیادت اور پوری قوم آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ دریں اثناءمقبوضہ وادی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کشمیریوں کی جانب سے 5 اگست کو ”یوم سیاہ“ کے طور پر منانے کے اعلان کے بعدبھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر کے متعدد حصوں میں کرفیو نافذ کردیاہے جب کہ مرکزی شہر سری نگر میں بھارتی سیکورٹی فورسزنے مکمل لاک ڈا¶ن کر کے سارے شہر کو سیل کردیا ہے واضح رہے کہ آج 5اگست کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے ایک سال قبل اس تاریخ کوانتہا پسند بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35A کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے بھارتی ریاست میں ضم کرنے کااعلان کیا تھا جس کےخلاف پچھلے ایک سال سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں زبردست احتجاج جاری ہے افسوس ناک امر یہ ہے کہ بھارت کے اس سفاکانہ اور عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے اقدام کے خلاف بھارت مخالف کشمیری قائدین سیدعلی گیلانی،میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کے علاوہ اب تک بھارتی حمایت یافتہ قراردیئے جانے والے سیاسی قائدین بھی کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔

 جن میں عمر عبد اللہ اورمحبوبہ مفتی بھی شامل ہیں یاد رہے کہ 5 اگست کے فیصلے کے بعد سے ہزاروںکشمیری نوجوانوں‘ آزادی کے حامی رہنما¶ں اور سیاست دانوں کو گرفتار کیا گیاہے جن کی اکثریت پرنہ صرف ریاستی جبرو تشددجاری ہے بلکہ بہت سوں کو ٹارچر سیلوں میں شہید بھی کیاگیا ہے جس پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ان ریاستی مظالم کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔عالمی حقوق گروپ کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ہندوستان نے کورونا وائرس کے پھیلا¶ سے نمٹنے کے نام پر مقبوضہ جموں وکشمیر میںمکمل تالا بندی کر رکھی ہے جس سے خطے میں پہلے سے موجود معاشرتی اور معاشی بحران مزید گہرا ہوگیاہے افسوس ناک امر یہ ہے کہ بھارت کے ان دعوﺅں کے باوجود کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات قدرے نارمل ہوئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں فوج اور نیم فوجی دستوں کی سینکڑوں چوکیاں اب بھی موجود ہیں اور انٹرنیٹ کوریج نہ ہونے کے برابرہے بچوں نے ایک سال سے بمشکل ہی کوئی تعلیم حاصل کی ہے۔دوسری جانب یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ گزشتہ ایک سال کے دوران کشمیری حریت پسندوں کے خلاف سیکورٹی آپریشنز میں بھی ماضی کی نسبت تیزی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے 2020 کو اب تک کے خونریز ترین سالوں میں شمار کیاجارہا ہے یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کاجغرافیہ اور آبادی کا تناسب بدلنے کےلئے خطے سے باہر کے دسیوں ہزار افراد کو کشمیریوں کے برابر حقوق دینے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہندو سرمایہ کار یہاں آکرنہ صرف زمینیں خرید رہے ہیں بلکہ یہاں بڑے پیمانے پر بھارت کے مختلف علاقوں سے ہندوﺅں کولاکر سرکاری سرپرستی میں آباد بھی کیا جارہاہے ۔حرف آخر یہ کہ پاکستان جوکشمیریوں کا حقیقی پشتیبان ہے کی موجودہ حکومت کی جانب سے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ایک دادا کی لاش پر بیٹھے ہوئے شیر خوار بچے کی تصویرپرمبنی یادگاری ٹکٹ جاری کرنا ،کشمیر ہائی وے کا نام سری نگر ہائی وے رکھنااور5اگست کے سیاہ ترین دن کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر یوم استحصال کے عنوان سے منانا مستحسن اقدامات ہےں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ٹوکن اقدامات کشمیری مسلمانوں کے پچھلے 72سالوں سے بالعموم اور گزشتہ ایک سال سے بالخصوص رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ سکیں گے امید ہے ہمارے حکمران اس تلخ سوال کے جواب پر ضرور غور فرمائیں گے۔