وباکے دنوں کی جدائیاں

 انہوں نے کھایا اور خوب کھایا مگر کھانے کے بعد ہاتھ نہیں دھوئے۔ ان کی جگہ ہم نے اور ساری دنیا کے لوگوں نے مفت میں ہاتھ دھوئے ۔کسی نے جان سے ہاتھ دھوئے اور کسی نے کاروبار سے کسی نے کالج سکول کی نوکری سے اور کسی نے ہر چیز سے ہاتھ دھوئے ۔

پھر کچھ تو خود بھی دھوئے گئے۔ایسے دھوئے گئے کہ دھلائی ہوئی ٹھکائی ہوئی سرراہِ پولیس کے ہاتھوں پٹائی ہوئی ڈنڈے کھائے گھروں میں زبردستی بھجوائے گئے دھنائی ہوئی ۔ جرم کسی نے کیااور اس کی سزاکسی اور کو ملی او ر ایسی کہ ایک کو نہیں کروڑوں کو سزاوار سمجھا گیا اور ہم بغیر قصور کے ایسے پشیمان ہوئے کہ بس کچھ نہ پوچھئے بلکہ پوچھتے تو وہ ہیں جن کو معلوم نہیںہوتا۔ آپ کو تو پتہ ہوگا اور پتہ ہونا بھی تو عام سی بات ہے پتہ پڑنا خاص بات ہے ۔مزا آنا اور ہے پھر مزا چکھنا الگ ہے ۔

سو ہم نے اس گناہ کا مزا چکھا جو ہم نے کیا ہی نہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اس ناکردہ جرم کی سزا سے واقف ہے ۔ہماری تو نوکریاں بھی گئیں نکال دیئے گئے اور پوچھا بھی نہیں کہ مجھے کیوں نکالا کیونکہ اگر پوچھا تو باس یہی کہے گا کہ ہمارا کارخانہ دیوالیہ ہو چکاہے ۔اس وائرس نے تو لوگوں کے کاروبار تباہ کئے مگر ساتھ ہی بہت سے لوگ مارے گئے ۔ عام اور مشہور سبھی کو کورونانے کہیں کانہ چھوڑا اور چھوڑا تو قبر میں لے جاکر چھوڑکر آگئے بلکہ مرنے والے کو تو ہاتھ بھی لگانا جیسے پھن پھیلائے کوبرا کو سر پر پیار کرنے سے ڈرنا ہے ۔مگر وہاں تو مارگلہ کی وادی میں ایک ہی بات ہے کہ ڈرنا نہیں مقابلہ کرنا ہے ۔کیسے مقابلہ کرناہے ۔ بھوکے پیٹ کون لڑے گا ۔

کوئی کچھ کھائے گا تھوڑا ہی سہی تو زور آئے گا۔پھر اس قابل ہو گاکہ اس بیماری کے گریبان میں ہاتھ میں ڈالے گا ” افسوس یہ وبا کے دنوں کی جدائیاں ۔ پسماندگاں گلے سے بھی لگ کر نہ روسکے“ ۔ سجاد بلوچ کے اس شعر میں کورونا کے بعد کی زندگی کی کس قدر خوبصورت تصویر کھینچی گئی ہے کہ اس جنازے میں اپنے قریبی بھی نہیں آتے مرنے والا کینسر ہی سے کیوں نہ مرا ہو۔شہر کی گلیوں کوچوں میں عام سڑکوں پہ لاک ڈان کے دنوں میں تنہائی سرِ عام رقص کرتی رہی مگر اس کو دیکھنے والا بھی کوئی نہ تھا ۔ سب گھروں میں مقیم تھے اور اپنے ہی گھر میں نئے طرز کی رہائش اختیار کئے رہے ۔” بازار ہیں خاموش تو گلیو ں پہ ہے سکتہ ۔ اب شہر میں تنہائی کا ڈر بول رہاہے“ ( اسحاق وردگ)۔دوسری طرف شہنشاہِ وقت کے دربار سے اشتہار جاری ہوا کہ غریبوں کو نوازا جائے گا ۔پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ اس بادشاہ نے نوازا اور خوب نوازا‘ تین مہینوں کےلئے بارہ ہزار روپے ایک غریب خاندان کے لئے بہت بڑی رقم ہے ہاں بشرطیکہ وہ اس میں سے ایک روپیہ بھی خرچ نہ کرے ۔کرایہ داروںکے مالک مکان کو کرایہ طلب کرنے پر مہینوںجیل ہونے کاحکم بھی ہوا مگر کس نے کرایہ نہ دیا اور کس نے رپورٹ درج کرائی اور 6 مہینوں کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کون گیا۔

سب کہنے کی باتیں ہیں ۔مالک مکان نے کرایہ داروں کو ڈرایا دھمکایا کرایہ دار کے دھڑ کے اوپر اگر سر موجود ہے تو اندر دماغ بھی ہے اور دماغ کے اندر ذہن ہے اور سوچ ہے کہ اگر تھانے میں رپٹ درج کروائی تو مالک مکان جیل نہ جائے مگر اس کے منشی کے ذریعے مجھے اس فلیٹ سے ہاتھ دھونا ہوں گے ۔کہا گیا دکانیں بند کرو ہم نے کہا کھائیں گے کیا۔وہاں کے دیوار و در سے آوازیں آتی رہیں کہ روٹی نہیں تو فروٹ کیک کھا یہ کون سی مشکل بات ہے ۔ہلال رفیق نے انھیں دنوں پشاور میں رہ کر ہی تو یہ شعر کہا ” امیرِ شہر کو بس فکرِ تحت و تاج رہی ۔یہ شہرِ گل یہ پشاور مرا اجڑتا رہا“۔باواجی جس معاشرے میں کورونا کے کارن اگر کرنسی نوٹ کو ہاتھ لگانے پر بھی بندش ہو تو اندازہ لگائیں کہ اس شہر اس ملک کی معیشت کی تباہ حالی کس اونچائی پر ہوگی۔ کیونکہ نوٹ اگر بالفرض مل جائیں تو ان کو ہاتھ نہیں لگانا کہ ان میں کورونا کاسانپ کنڈلی مار کر بیٹھا ہوا ہے اس کو جگانانہیں وگرنہ اس کی وجہ سے جو حشر نشر ہوگااس کے نتیجے میں جنازے کو کندھا دینے والے چار بندے بھی دستیاب نہ ہوں گے۔