جامعات معاشرے کے وہ مراکز ہیں جہاں سے علم وتحقیق کے نت نئے چشمے پھوٹتے ہیں۔یہ وہ علمی پلیٹ فارم ہے جہاںکسی بھی معاشرے کو درپیش مسائل پر بحث ومباحثے کا نہ صرف آغاز ہوتا ہے بلکہ اس ضمن میں معاشرے کی راہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا ہے‘لیکن اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جب جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں اصلاحات اورری سٹرکچرنگ کے نام پر ہر شعبہ زندگی کو تختہ مشق بنانے کا سلسلہ شرو ع کیا گیا توسول بیوروکریسی‘سیاست‘بلدیاتی اداروں اور پولیس کےساتھ ساتھ اس کی زد میں آنے والا ایک اہم شعبہ اعلیٰ تعلیم کا بھی تھا۔ ملک کے طول وعرض میں پبلک سیکٹر کے علاوہ گلی گلی اور محلے محلے پرائمری سکولوں کی طرز پر نجی جامعات کو تھوک کے حساب سے چارٹر ملنے لگے بظاہر یہ سب کچھ اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور بین الاقوامی مارکیٹ میں دوسری اقوام کے مقابلے کے نام پر ہوا لیکن چونکہ من حیث القوم ہم ہربات میں شارٹ کٹ مارنے اور ہرچیز کو اپنے ذاتی مفاد کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں ا س لئے ہائر ایجوکیشن سیکٹر میں ہونےوالی یہ ترقی ہمیں راس نہیں آئی دراصل ہمیں یہ طویل تمہید گزشتہ کچھ عرصے سے صوبے کی جامعات کی انتظامی اور مالی بدانتظامیوں سے متعلق پے درپے سامنے آنےوالی ان خبروں کے تناظر میں باندھنی پڑی ہے۔
جن میں یہ انکشافات کئے گئے ہےں کہ اس وقت صوبے کی اکثر پبلک سیکٹر جامعات کو سنگین مالی اور انتظامی بحرانوں کا سامنا ہے حتیٰ کہ پشاور اور زرعی یونیورسٹی جیسی پرانی جامعات کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن دینے کےلئے بھی وسائل نہیں ہیں‘جامعات کے اندرونی معاملات میں پائی جانے والی ان خامیوں کےساتھ ساتھ یہاں صوبائی حکومت کی جامعات سے متعلق اپنائی جانے والے بے اعتنائی پر مبنی رویئے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے جس کا واضح ثبوت ذرائع ابلاغ میں تواتر کے ساتھ ان خبروں کا سامنے آنا ہے کہ صوبے کی 31سرکاری جامعات میں 8 مستقل وائس چانسلر،20بغیر رجسٹرار اور 23 بغیر کنٹرولر امتحانات کے چل رہی ہیں جب کہ ایک یونیورسٹی ایسی بھی ہے جس میں رجسٹرار کا عہدہ آٹھ سال،کنٹرولر کا چھ سال اور ڈائریکٹر فنانس کاعہدہ پانچ سال سے خالی ہے اور ان عہدوں پر جونیئر افسران کے ذریعے عارضی بنیادوں پر کام چلایا جارہا ہے نیز کچھ جامعات ایسی بھی ہیں جہاں پرووائس چانسلر کا قانونی عہدہ کئی ماہ بلکہ بعض جامعات میں ڈیڑھ دوسالوں سے خالی پڑا ہے۔ واضح رہے کہ ان رپورٹس کی بازگشت گزشتہ دنوں صوبائی اسمبلی میں بھی سنی گئی ہے جس پر اعلیٰ تعلیم کے لئے وزیر اعلیٰ کے مشیر خلیق الرحمٰن کا کہنا تھا کہ حکومت کی صوبے کی جامعات کی بدانتظامی سے متعلق معاملات پر گہری نظر ہے اور اس حوالے جامعات کے ایکٹ اورماڈل سٹیچوٹس میں پائے جانے والے سقم کو نئی قانون سازی کے ذریعے جلد ہی ختم کیا جائےگا ۔
جب کہ اسی اثناءگونر خیبر پختونخوا نے صوبے کے سینئر صحافیوں کےساتھ گفتگو میں صوبے کی جامعات کی صورتحال خاص کر وہاں مالی بدانتظامیوں اور طالبات کی ہراسمنٹ کے واقعات کا سخت نوٹس لینے کے عزم کا اعادہ کرنے کیساتھ ساتھ جامعات میں مالی ڈسپلن کو یقینی بنانے اور جامعات میںیونیفارم کوڈ نافذ کرنے کا اعلان بھی کیاہے ۔گورنر خیبرپختونخوا جو صوبے کی تمام پبلک سیکٹر جامعات کے بربنائے عہدہ چانسلر بھی ہیں کی جانب سے یہ اعلانات خوش آئند ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جامعات کی بدنظمی کوہدف تنقید بناتے ہوئے ہمیں یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ یونیورسٹیز ایکٹ 2012اور یونیورسٹیز ماڈل سٹیچوٹس 2016کے تحت جامعات کے تمام فیصلہ ساز فورمز خاص کر سینڈیکیٹ اور سینیٹ میں صوبائی اسمبلی،ہائی کورٹ اورایچ ای سی کی نمائندگی کے علاو ہ کم از کم تین محکموں ایچ ای ڈی،فنانس اور اسٹبلشمنٹ کے سیکرٹری صاحبان بھی بطور ممبران موجود ہوتے ہیں لہٰذا جامعات کے مجموعی معاملات کو زیر بحث لاتے ہوئے یہاں پائی جانے والی خامیوں یا کوتاہیوں کےلئے ان جامعات کے صرف انتظامی سربراہان کومورد الزام ٹھہرانا قرین انصاف نہیں ہوگابلکہ یہاں ہونے والی بے قاعدگیوں اور خامیوں کے سدباب کےلئے جائزے اور احتساب کا سائنسی بنیادوں پرایک ایسا ا جتماعی پیمانہ متعارف کرنا ہوگا جس کے ذریعے ا فراد کے علاوہ پورے سسٹم پر چیک رکھنے کے ساتھ ساتھ ذمہ داروں کا محاسبہ بھی باآسانی کیا جاسکتاہو ۔ لہٰذا توقع ہے کہ حکومت جہاں جامعات کے انتظامی معاملات کی اصلاح واحوال پر توجہ دے گی وہاںجامعات کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے وفاقی حکومت کے تعاون سے کسی دیرپا بیل آﺅٹ پیکج کے ذریعے بھی صوبے کی جامعات کو موجودہ مالی بحران سے نکالنے کی کوشش کرے گی۔