بڑی عید کے روز پچھلے سال صبح سویرے بچوں کو لے کر اونٹ کی قربانی دکھلانے شہر تحصیل گورگھٹری کے مین گیٹ کے باہر پہنچا۔ یہاں ایک بھیڑ بھاڑ کا عالم تھا۔ یہیں سڑک پر اونٹ ذبح کئے جاتے ہیں ۔ وہاں ایک گھر میں ان کی قربانی کا گوشت صبح صبح دیگوں میں چڑھا کر پکایا بھی جاتا ہے اور کھلایا جاتا ہے۔اس تاریخی عمارت کے باہر سڑک والی دیوار کے ساتھ فٹ پاتھ پر دریاں بچھا کر شہریو ںکو اونٹ کا گوشت سالن میں پکا کر پیالوں میں روٹی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔لوگ خوب مزے لے لے یہ نئی ڈش کھاتے ہیں ۔ یہ عام دنوں میں قسمت ہی سے ملے تو ملے ۔کیونکہ اونٹ کا گوشت تو دکانوں پر روز کے روز تونہیں ملتا ۔ یہ سال کے سال عیدِ قرباں پر ہی شہریوں کے ہاں مل پاتا ہے ۔وہ بھی ہر گھر میں نہیں بلکہ بعض صاحبان شوقیہ طور پر گائے بیل کے بجائے اونٹ کی قربانی کرتے ہیں ۔تحصیل گیٹ کے باہر گھر کے لئے بھی شاپر میں ڈال کر پکاپکایا گوشت دینے کا بندوبست ہوتا ہے۔اونٹ کو ذبح کرنا عام گائے بیل کو حلال کرنے سے مختلف ہے ۔ہم نے تو بچیوں کو لے جا کر وہاں اونٹ حلال کرنے کا تماشا بھی کروایااور کھانا بھی تناول فرمایا۔زمین پر سڑک کے کنارے لوگ لب و دنداں کو تسکین دینے کے لئے دستر خوان پر بیٹھے ہوتے ہیں ۔ ان کے کھا کر اٹھنے کے انتظار میں اور لوگ کھانے والوں کے سروں پر کھڑے ہوتے ہیں۔
گویا ان کے نوالے گن رہے ہوتے ہیں ۔ہم نے تو کھایا بھی اور بچوں کی ماں کے لئے ساتھ بھی لائے۔ وہاں ایک اچھی خاصی تفریح ہوتی ہے ۔ایک اونٹ جب ذبح ہو جاتا ہے تو تھوڑی دیر بعد آوازہ اٹھتا ہے کہ دوسرا اونٹ لا یا جا رہاہے ۔ ایک ہاہاکار مچ جاتی ہے ۔ میںبچوں کی انگلی کس کے پکڑ لیتا ہوں کہ بھیڑ میں گم نہ ہو جائیں۔اس رش میں کھڑا سرخ داغوں دھبوں سے آراستہ کپڑوں والا قصاب دور سے پہچان لیا جاتا ہے ۔وہ اس وقت کسی خطرناک فلم کا ہیرو دکھائی دیتا ہے ۔ ہٹوہٹو کی آوازیںابھرتی ہیں تو اس میں ہجوم کو چیر کر لایا جانے والا اونٹ دکھائی دینا شروع ہو تا ہے اوپر گھروں کی کھڑکیوںسے خواتین یہ منظر دیکھ رہی ہوتی ہیں ۔ بلکہ وہاں گھروں میں مہمان خواتین بھی آ جاتی ہیں جو یہ قربانی دیکھ کر ویڈیو ریکارڈ کر کے واپس چلی جاتی ہیں۔ میں نے سوچا کہ اس رش میں دھکا لگنے سے بچیاں زمین پر گر سکتی ہیں اور پھرقد چھوٹا ہونے کی وجہ سے ان کو آدمیوں کے سروں کے اوپر سے نظر بھی کب آئے گا ۔ پھرمیںدونوں کو گود میں اٹھانے سے رہا ۔سو میںنے ایک طرف کھڑے بائیک کی سیٹ پرانھیں کھڑا کر دیا۔پھر ان سے کہہ دیا کہ مجھے مضبوطی سے پکڑ لو۔اس طرح وہ عام لوگوں کے قدو قامت سے اوپر ہو کر دیکھنے لگیں۔ مگر جوں ہجوم نے انگڑائی لی اور بھیڑ نے ایک سانس بھرا تو اس موج کا یہ ریلا ہماری جانب بڑھا ۔
اندیشہ تھا کہ بھیڑ بھاڑ میں بچے تو بائیک کے سمیت گریں گے۔ فوری طور پر ان دونوں کوساتھ ایک گھر کی سیڑھیوں میں دھکیل دیا کہ اوپر جا¶ اور خواتین کے ساتھ بالکونی سے یہ منظر دیکھو ۔ہمارے بچپن میں خود ہماری گلی محلہ شاہنچہ باشی چوک ناصر خان میں حاجی نثار کی گائے کی قربانی بہت مشہور تھی۔ گلی کے سب لوگ اس گھر کے صحن میں موجود ہوتے ۔ گائے لائی جاتی اور دھوم دھام سے چھن چھنا چھن بلکہ دھن دھنا دھن آتی ۔اسے تین سیڑھیاں چڑھا کر اندر لے جایا جاتا۔ اندر صحن کے گرد کمرے ہوتے ۔جن کے بستوں کی درزوں میں سے گلی محلے کی خواتین یہ منظر چوری چھپے دیکھتیں ۔پھر بعض خواتین اوپر والی منزل کے لوہے کے منگ سے گائے کٹے کا منظر دیکھتیں۔ ہم بچہ لوگ ڈر کے مارے خواتین کے ساتھ نیچے صحن سے پیوست گیلریوں میں سے یہ قربانی کا یہ منظر دیکھتے ۔کیونکہ وہاں ہمیں تحفظ حاصل تھا۔اگر گائے رسی توڑ کر دوڑے تو ہماری بلاکو بھی پروا نہ تھی۔کیونکہ ہم جس کمرے میں ہوتے وہاں آڑھی ترچھی لکڑی کی تین سیڑھیاں ہوتیں ۔لیکن دل کے کسی کونے میں دور کہیں خوف ہوتا کہ گائے بھاگی توہمارے والے کمرے میں نہ آ جائے۔ جب گائے کے ساتھ تین چار آدمیوں کے کشتی کرکے گرانے کا مرحلہ آتا تو خواتین کی آنکھوں سے آنسو ڈھلک جاتے ۔گائے قربان ہو جاتی او رمیں تین دن تک اداس رہتا ۔ باربار وہی منظر آنکھوں میں دکھن کا باعث بنتا ۔اب تو وہ دور نہیں اب تو گلی گلی کوچے کوچے قربانیاں ہوتی ہیں ۔ایک گلی میں گھس جا¶ تو ہر گھر کے دروازے کے باہر گائے کٹ کر زمین پر بچھی ہوئی ہوتی ہے ۔ہر گلی کوچہ کے اندر نالیوں میں عید کے روز صبح سویرے پانی کی جگہ خون بہتاہے ۔بچی کو لے کر صبح قربانی کا منظر دکھلانا ہو تو وہ دیکھ کر کھو سی جاتی ہے ۔اداس ہو جاتی ہے ۔ خوشی خوشی آتی ہے مگر خفا خفا گھر کو لوٹتی ہے ۔ گھر آکر کہتی ہیں کہ ہائے بیچاری گائے۔ مگر کیا کریں قربانی میں اداسی اور دل کا خفا ہونا نہ ہو تو قربانی کا مزا کہا ںآتا ہے۔