دوپہیے

 جمہوریت میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی حیثیت گاڑی کے ”2 پہیوں“ سے مشابہ ہوتی ہے‘ جن کے سہارے طرزحکمرانی آگے بڑھتی ہے یعنی عوام کے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن پاکستان کے پارلیمانی جمہوری نظام کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ اُن کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ سبھی امور کہ جن پر ”قومی اِتفاق رائے“ عام ہونا چاہئے تھا لیکن یہ پہلے سے زیادہ شکوک بنا دیئے گئے ہیں۔ عام آدمی کے نکتہ¿ نظر سے حزب اقتداراور حزب اختلاف یکساں طور پر اپنا اپنا جمہوری کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں اور سبھی سیاسی جماعتیں کہ جنہیں قومی کی بجائے اپنے اپنے جماعتی مفادات زیادہ عزیز دکھائی دے رہے ہیں‘ عوامی توقعات جیسے معیار پر پورا نہیں اُتر رہیں۔ جمہوری پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعتوں کا ’جاندار کردار‘ قانون ساز اِیوانوں کے اندر دکھائی دینا چاہئے اور یہی وہ پلیٹ فارم ہوتا ہے جس پر کسی جماعت کی کارکردگی کی پیمائش کی جاتی ہے کہ وہ قومی امور کے بارے بحث میں کس قدر معیاری مواد کا اضافہ کر رہی ہے۔ موجودہ پارلیمان میں ہونے والے مباحث کا معیار ماضی کی پارلیمانی کارکردگی کے مقابلے کمزور ہے اور یہ الگ بات ہے کہ جب ایوان کے اندر معیاری بحث ہوتی تھی تو اُس سے کون سے قومی مسائل حل ہوئے! موجودہ حزب اقتدار کی داخلی صفوں میں انتشار پایا جاتا ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف کی مرکزی قیادت اور رہنماو¿ں کو بھی اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے اور ہر کسی کی کوشش ہے کہ وہ خود کو قومی احتساب بیورو کی نظروں میں آنے سے بچائے۔

 ایسی صورت میں جبکہ نواز لیگ کے پیپلزپارٹی اور پیپلزپارٹی کے نواز لیگی قیادت کے بارے میں غیرمحتاط تحفظات کا اظہار ہو رہا ہے تو کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ ’سیاسی نفسانفسی کے جاری دور میں مولانا فضل الرحمن حزب اختلاف کی مذکورہ دونوں بڑی جماعتوں کے رویے سے شاکی ہونے کے باوجود حکومت مخالف محاذ پر ڈٹ کر لڑ سکیں گے۔لیگی قیادت بشمول نواز شریف اور مریم صفدر خاموش ہیں اور چونکہ سیاست میں کچھ بھی بلاوجہ نہیں ہوتا اِس لئے تحریک انصاف اور نواز لیگ کے درمیان ہوئے خفیہ معاہدے کا یہ نکتہ تو کم سے کم راز نہیں رہا کہ نواز لیگ تحریک انصاف کے خلاف سیاسی بیان بازی نہیں کرے گی۔ نواز شریف برطانیہ میں ہیں لیکن چہل قدمی کے لئے گھر سے باہر نکلنے سے پہلے اُن کی تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان پہنچ جاتی ہیں! ”سیاسی لب بندی“ کے اِس دور سے نواز شریف بڑے لیڈر بن کر اُبھریں گے‘ اِس بات کے امکانات ہر دن کم ہو رہے ہیں لیکن اگر وہ پاکستان ہی میں رہتے تو حکومت کے لئے درد سر بن سکتے تھے۔ اندازہ یہی ہے کہ میاں نواز شریف اپنا زیادہ تر وقت پارک لین کے فلیٹ میں ہی گزارتے ہیں‘ جہاں وہ اپنے پسندیدہ کالم نگاروں کے ایک دو مضامین پڑھنے کے لئے علاوہ من پسند پاکستانی نیوز چینلز دیکھنے میں بیشتر وقت صرف کر رہے ہیں اور دیگر سبھی سیاسی مصروفیات ترک کئے بیٹھے ہیں ۔

حالانکہ کسی بھی ڈاکٹر کے نسخے میں یہ نہیں لکھا کہ وہ جس سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اُس کے کارکنوں اور تنظیمی ڈھانچے کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ خودساختہ جلاوطنی کے ساتھ خودساختہ جبر کے دور سے گزرنے والے نواز شریف نے اپنے کارکنوں کو جس طرح نظرانداز کر رکھا ہے اگرچہ یہ پہلی مرتبہ نہیں اور وہ جانتے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل چند ارب روپے کی سرمایہ کاری کرکے اُن کی سیاسی جماعت کس طرح قومی انتخابات لوٹ سکتی ہے! شہباز شریف اگرچہ پاکستان میں موجود ہیں لیکن اُن کی نقل و حرکت اور مصروفیات بھی لاہور میں اپنی رہائشگاہ کی چاردیواری تک ہی محدود ہیں‘ جہاں کورونا وائرس سے متاثر ہونے اور صحت یابی کے بعد اُن کا بیشتر وقت گزر رہا ہے۔ اُن کے حد سے زیادہ محتاط طرز زندگی سے عیاں ہے کہ وہ فی الحال کسی بھی قسم کے حکومت مخالف احتجاج یا مہم میں حصہ نہیں بننا چاہتے اور نہ ہی ڈھائی برس قبل نواز لیگ سیاسی جلسوں کے انعقاد پر کروڑوں روپے خرچ کرنا چاہتی ہے۔ لیگی کارکن ووٹ دینے کی حد تک تو وفادار ہے لیکن وہ جیل بھرو احتجاجی تحریک اور پولیس کے لاٹھی چارج سہنے کا مزاج نہیں رکھتا۔ پنجاب کی طرح حزب اختلاف کا دوسرا مرکز سندھ ہے‘ جہاں پیپلزپارٹی باسہولت انداز میں حکومت جاری رکھے ہوئے ہے اور اُسے تحریک انصاف سے ایسا کوئی مسئلہ نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ وفاق مخالف تحریک چلائے۔

 پیپلزپارٹی کبھی کبھار وفاق سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے جو کورونا وبا کی حکمت عملی پر اختلاف اور کراچی میں صفائی کی صورتحال‘ نالے نالوں کی صفائی کے بعد آٹے کی قلت و قیمت پر بحث کی صورت سامنے آیا لیکن حالات ’خوش اسلوبی‘ سے رواں دواں ہیں اور پیپلزپارٹی بھی نواز لیگ کی طرح اُس مناسب وقت کا انتظار کر رہی ہے جسے عرف عام میں ”عام انتخابات“ کہا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا مخمصہ یہ ہے کہ پنجاب میں وہ احتجاجی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ پیپلزپارٹی کو ماضی کی طرح افرادی قوت میسر نہیں حال ہی میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگی قیادت کے درمیان لاہور میں جو سیاسی مکالمہ ہوا وہ دونوں کے غیرسنجیدہ روئیوں کا عکاس ہے۔ ایک موقع پر جب بلاول نے ہنستے ہنستے کہا کہ ”شہباز شریف اپوزیشن کے انقلاب کی رہنمائی کریں گے“ تو جواباً شہباز شریف کو کہنا پڑا کہ ”نہیں سیاست کو قیادت اور قیادت کو بلاول کے ”جوان کندھوں“ کی ضرورت ہے۔“ یعنی کوئی بھی حزب اختلاف کی ذمہ داری اُٹھانا نہیں چاہتا! تحریک انصاف سے زیادہ خوش قسمت شاید ہی ملک کی کوئی دوسری جماعت ہو‘ جسے اِس قدر ’موافق سیاسی حالات‘ اور ’بے جان و بے زبان‘ حزب اختلاف میسر آئی ہو۔