گرمی کا جوبن

 کچھ دن ہو گئے ہیں کہ گرمی نے اپنے حملوں میں تیزی لانا شروع کردی ہے‘ اس کے تابڑ توڑ حملوں سے شہر ‘گلیاں ‘کھیت ‘چوراہے ‘ویران چوک ‘ جانور نہ راہوں راستوں پر انسان ‘نہ کوئی مہمان اور نہ ہی خود مہمان ‘اوپر سے گوشت کے پکوان اور پھر گرمی کے کارن ہاضمہ کی شکایات کے دیوان۔مگر ان دنوں اگر کچھ ٹھنڈا بلکہ ٹھنڈا ٹھار ہے تو وہ بعض علاقوں کے گھروں کے چولھے ہیں‘ جن پر ان آگ برساتی گرمی میں بھی برف جمی ہے‘باواجی گیس نہیں ہے ‘گرمیوں میں یہ حال ہے تو سردیاں جب آئیںگی کیا حال وہ حال بھی تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ‘علی الاعلان فرما دیا گیا ہے کہ اگلے دو سال سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ ہوگی‘ یہ خبر سن کر مجال ہے کہ دل خوفزدہ ہوا ہوکیونکہ ہمیںتو اس مصیبت کاسامنا سال بھر رہتا ہے‘ اس آتش ونار گرمی میں بھی جہاں گیس کی قلت سے مشت و گریباں ہیںوہاں سردی میں بھی بعض علاقوں میں گیس کہاںہوتی ہے‘چاہئے تو یہ کہ اگر اس نایاب چیز کی قلت ہو تو سردی میں ہو کہ اس کی ضرورت اور کھپت زیادہ ہوتی ہے مگر اس گرمی کی تپش کے دنوں میں سوئی گیس کا نہ ہونا بہت حیران کن ہے پھر گیس کے نرخ بھی تو بڑھ جا تے ہیں ‘ دکاندار حضرات سو پچاس کی گیس توڈال کر دیتے نہیں کہ گیس کے سلنڈربھروا لیں جو خشاک جلاتے ہیں وہ گھر بھی پریشان ہیں کہ انھیں گھاس پھونس بھی تو گراں قیمت پر ملتا ہے ایک طوفانِ بلاخیز ہے ایک ہاہاکار مچی ہے ایک اودھم ہے ایک دھمکار ہے ۔

 آدمی کہاں جائے کہ اس سرزمین کے بغیرکسی اور زمین کی نہ تو شہریت ہے اور نہ ہمیں وہاں کوئی چھوڑتا ہے اور نہ پاسپورٹ ہے اور نہ جیب میں سکے ہیںکہ ٹکٹ ہی کٹوا کرکہیں دور ٹھنڈے ملکوں میںبھاگ جائیں ۔ اتنا بھی نہیں اپنی سیرگاہوںکا چکر لگا آئیں کچھ ستاروں کی چال کی بندش ہے اور کچھ وہ راستے بند ہیں جو پہاڑی مقامات کی سمت کوجاتے ہیں‘ سنا ہے کہ سیاحتی مقامات کھول دیئے ہیں ‘گرمی نے اپنا تا¶ دکھلانا شروع کر دیا ہے مگر جلدہی کڑکتی تپش کا یہ سائبان ٹھنڈی ہوا¶ں سے دو نیم ہو کر زمین پر آن رہے گا کیونکہ جو گرمی کا پورشن زیادہ تھا وہ گزر گیا ‘اب امید کی گھڑیاں ہیں کہ بس یہ آخری مہینہ ہے جس کے آٹھ دن تو ماضی کا حصہ بن گئے ہیں اب کچھ ہی روز باقی ہیں اور پھر موسم کا ستارہ ستمبر کے برج میں داخل ہوگا تو گرمی کے اثرات کم ہونا شروع ہو جائیںگے مگر جاتے جاتے گرمی نے دس پندرہ سالوں میں ستمبر کے ماہ میں بھی چھیڑ خوانی کی ٹھان رکھی ہے ۔ اب پندرہ اکتوبر کے بعد یخی کا احساس ہو تاہے ۔ یہ موسمی تبدیلیاں ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں ایسا نہ تھا پھر موسم کی تبدیلیاں ہمارے اپنے کرتوتوں سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔زمین پر انسانوں نے وہ دھوئیں اور گرد و غبار پھیلا رکھے ہیں کہ ا ب خود ا ن کے ہاتھ میں نہیں کہ اس اونچی کی ہوئی پتنگ کو جو اب دور دراز لوگوں کے گھروں کی دیواروں کے اوپر جھولتی ہے کنٹرول کریں‘ ایک تو گرمی کے زور میں سڑکوں پر سناٹا اور دن دیہاڑے تپش نے لوٹ مار مچا رکھی ہے اوپر سے کورونا وائرس کاڈر جو اس ویرانی کی وجہ بنتی ہے ۔دن ایک بجے اگر برف لینے کے لئے نکلوتو ہر دکاندار جواب دے گا کہ برف تو ختم ہو گئی ہے ۔برف کی دکان اگر مل جائے تو اس پر رش ہے ۔

پھر اس سے بولو کہ تیس روپے کی برف دو تو جواب ملے گا کہ پچاس سے کم کی نہیں بیچتے ۔افسوس ہم نے شہر میں سے درخت بھی کاٹ دیئے ہیں جو حبس کو کھاتے ہیں کیونکہ سبزے کی خوراک حبس اور گرم ماحول ہے ۔اگر ہم شکایت کریں تو گلہ فضول ہے کیونکہ پشتو میں کہتے ہیں کہ ”کس نے کیا یہ میں نے خود کیاہے“ ۔خود کا مطلب خود کشی سے ہے ۔خود دھوئیں ایجاد کئے خود درخت کاٹے سو خود بخود اس بلاکے نرغے میں آ گئے۔عین دوپہر کو جب سورج سوا نیزے پر ہے تو گیس نہ ہونے کی وجہ سے گوشت کہاں سے پکے گا‘ پھر اتنی طاقت بھی کہاں کہ تھوڑی دیر کو سورج کو نیچے بلا کر ملتان ہی میں سہی گرم شہر میں اپنا گوشت بھون لیں۔ ” نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش۔ برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے “۔(آتش )۔اس وقت ہماری واحد امید بارش ہے کہ چلو دو ایک دن اچھے گزر جائیں ‘آر پار بارشیں ہیں اور ہم محروم ِ تماشا بھی ہیں اور محرومِ زمانہ بھی ۔باہر کے ملکوں میں تو ہر جگہ اے سی نہ سہی روم کولر لگے ہیں‘ وہاں اگر گرمی ہے تو اس کا حل بھی ہے‘ صرف محرومی اور ٹاپ کی محرومی ہر چیز میں محرومی ‘کون سی چیز وافر ہے کون سی چیز ارزاں ہے ‘جو نیا بادشاہ تخت پر بیٹھتا ہے تو پچھلے ظالم بادشاہ کی یاد آناشروع ہوجاتی ہے کہ وہ کتنا اچھا تھا‘وہ تو پٹرول بیچ کر مالدار ہوئے ہم کیا بیچیں ہمارے پاس ہے کیا ۔