یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب سے طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ طے پایا ہے اور دونوں فریقین کی جانب سے اس معاہدے پر عمل درآمد کی یقین دہانیاں کرائی جاتی رہی ہیں تب سے بعض قوتوں کوافغانستان کے مستقبل میں طالبان کے ممکنہ کردار کے حوالے سے پریشانی لاحق ہے ‘دوسری جانب طالبان چونکہ اپنے آپ اور اپنی طاقت کو ایک برسرزمین حقیقت کے طور پر دنیا کی سپریم پاور سے اس سال دوحا میں طے پانے والے معاہدے کی شکل میں منو اچکے ہیں اس لئے طالبان کی اس سیاسی اور عسکری فتح کو بھارت کی قیادت میں بعض مقامی قوتیں سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں جن کو بدقسمتی سے افغان حکومت کے اندر سے بھی بعض عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے جن کے عزائم کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ‘افغانستان کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ امریکہ اگلے سال کی پہلی سہ ماہی سے پہلے پہلے اپنی افواج کا یہاں سے مکمل انخلاءچاہتا ہے جس کا وعدہ امریکی صدر اپنی قوم سے بہت پہلے کر چکے ہیں اور جس کا واضح روڈ میپ طالبان امریکہ امن معاہدے میں موجو دہے‘یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جہاں گزشتہ روز امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ایک تازہ بیان میں قوم کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ نومبر میں امریکی صدارتی الیکشن کے دن تک افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد محض چار پانچ ہزار تک رہ جائے گی۔
وہاں طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے طالبان کی مذکراتی ٹیم کے سربراہ ملا برادر اخوند سے نہ صرف ویڈیو ملاقات کی ہے بلکہ اس رابطے کے دوران افغان امن عمل پر بات چیت بھی کی گئی ہے‘طالبان ترجمان کاکہنا تھا کہ پومپیو اورملابرادر کے درمیان افغان حکومت کی جانب سے بعض طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر پر بھی بات ہوئی ہے جو ان کا مطالبہ ہے‘یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے‘قیدیوں کے تبادلے کا عمل 10 مارچ سے قبل مکمل ہونا تھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم متعدد مسائل کی وجہ سے یہ عمل سست روی کاشکار رہا ہے‘اس ضمن میں سب سے بڑی رکاوٹ طالبان قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے اختیار کئے جانے والے ٹال مٹول پرمبنی رویئے کی صورت میں سامنے آیا تھا جس کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی تھی۔
جس پر امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد شٹل ڈپلومیسی کے تحت دوحا،اسلام آباد اور کابل کے متعدد دورے کرتے ہوئے دیکھے گئے تھے‘حکومتی ذرائع کے مطابق ان کی جانب سے اب تک ساڑھے چار ہزار سے زائد طالبان قیدی رہا کئے جا چکے ہیں جب کہ طالبان طے شدہ معاہدے کے تحت ایک ہزار افغان حکومت کے سرکاری اہلکاروں اور سکیورٹی فورسز کو رہا کرچکے ہیں جن کی تصدیق حکومتی ذرائع بھی کرتے ہیں‘دراصل قیدیوں کی رہائی پر دونوں جانب ڈیڈلاک اس وقت پیدا ہوگیا تھا جب طالبان نے افغان حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ طالبان کی دی گئی فہرستوں کی بجائے عام جرائم پیشہ افراد حتیٰ کہ داعش کے جنگجوﺅں کو طالبان قراردے کررہا کر رہی ہے جس پر افغان حکومت نے قیدیوں کی رہائی کو عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس سے دونوں جانب بداعتمادی کے ایک نئے سلسلے نے جنم لیاتھا البتہ اس حوالے سے تازہ ڈیڈ لاک ان چار سو قیدیوں کی رہائی سے انکار پر پیدا ہو اہے جن کے بارے میں افغان صدر اشرف غنی برملا کہہ چکے ہیں کہ ان کی رہائی کی اجازت نہ تو ملک کا آئین دیتا ہے اور نہ ہی ان کے پا س بطور صدر ایسے کچھ اختیارات ہیں جن کے بل بوتے پر وہ ان قیدیوں کو رہا کرسکتے ہیں۔دریں اثناءافغان حکومت ان چارسو قیدیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے کل7اگست سے آج 8اگست تک کابل میںافغان لویہ جرگہ منعقد کررہی ہے جس میں افغانستان کے طول وعرض سے مختلف قومیتوں اور مکاتب ہائے فکر کے نمائندہ ساڑھے تین ہزار افراد کی شرکت متوقع ہے جس کو طالبان نے وقت کا ضیاع اور ان کے قیدیوں کی رہائی کے معاملے کو طول دینے کا غیرمنطقی حربہ قرار دیتے ہوئے رد کردیا ہے۔