کورونائی دورکی شاعری

 جو ماحول میں ہوتا ہے بندہ اس کو دیکھ کر کچھ احساسات رکھتا ہے ۔پھر کورونا ہو اور رونا ہو آج سے نہ ہو پانچ ماہ سے ہو تو بندہ درد محسوس کرتے کرتے عاجز آ جاتا ہے ۔ہمارے شاعر بھی ہیں ۔ ان کی محسوس کرنے کی طاقت بہت زیادہ ہے ۔ گویا شاعر تو اپنے ارد گرد کا اینٹنا ہے ۔ جو کچھ آس پاس ہوتا ہے وہ اس سے لاپروا نہیں رہ سکتا۔وہ جان بوجھ کر کسی مسئلے کو جو جلتا ہوامسئلہ ہو اپنی شاعری میں نہیں گھسیٹتا۔ یہ تو ایک خود رو عمل ہے کہ شاعر جو کچھ دیکھتا ہے اسے سوچنے لگ جاتا ہے او رپھر اس سوچ کے تحت اس کے ہاںشاعری جنم لینا شروع ہو جاتی ہے ۔یا تو ایک شعر یا پھر غزل اور پھر غزل کے اوپر ایک اور غزل اورپھرنئے نئے اشعار تخلیق ہونا شروع ہوتے ہیں۔کورونا کے دور میں ہمارے شاعروں کے ہاں خواہ پشاور کے ہیں یا خیبر سے کراچی تک کے شاعر ہیں یا پوری دنیا میں کسی اورزبان میں شعر کہنے والے ہیں ان کے ہاں کورونا کا رونا آپ سے آپ آ جاتا ہے ۔ بس کوئی مصیبت ہو اس کا سامنا ہو اس سے واسطہ ہو تو ایک آدھ شعر اس کے خلاف کہہ دینا تو کہیں گیا نہیں۔اس کورونائی دور میں تو قریب قریب ہر شاعر کے ہاں سے کم از کم ایک شعر الگ انداز سے سہی آیا ضرور ہے ۔بلکہ کورونا سے پہلے کے جو شاعر سو سال پہلے اور بعد میں گزرے ان کے بعض اشعار بھی اس وبا پر پورے پورے فٹ آتے ہیں جیسے ماہر درزی کے ہاں سے کپڑے سل کر آئیں اور آدمی کے تن بدن پراچھے لگیں۔ایک کالم میںاس کی مثال بہت سے شعر پیش کر چکا ہوں مگر یہ شعر پیش نہیں کیا جو بشیر بد ر نے کورونا سے مدتوں پہلے کہا تھا”کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گاجو گلے ملو گے تپاک سے۔ یہ نئے مزاج کاشہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو“۔جیسے مرحوم کو کورونا کے بارے میں پہلے سے معلومات حاصل ہو ں کہ بیس بیس میں آئے گا۔

 وہ شعر بھی ہیں جو کورونا سے پہلے میر غالب فراز اور پشاور کے شاعروں نے یا ارضِ وطن کے شعراءنے کہہ لئے تھے۔اب سوچا کورونا کے آکر چھانے کے بعد ڈھیروں اشعار ہیں ۔جن میں کچھ پیش کروں اور قارئین کرام کا ذائقہ بدلنے کی کوشش کروں۔ یہ جغادری لوگ بھی جو چاند کو نصف صدی پہلے تسخیر کر کے آئے تھے کوروناکاعلاج فی الوقت ایجاد نہ کر سکے۔سائنسدان تو کورونا سے لڑ رہے ہیں ۔جیسے کسی باغ میں لکھاہوتا ہے کہ پھول توڑنامنع ہے۔ اسی طرح اب تو دکان بنک یا دفتر کے باہر لکھا ہوتا ہے” ہاتھ ملانا منع ہے“یا” ماسک کے بغیر انٹری نہیں “۔عجیب دور آیا ہے کہ ہاتھ تو ملانا دور اب تو کہتے ہیں کہ جب تک ماسک نہیںسانس بھی نہیں لینا ۔پشاور کے شوق جعفری ہیں خوبصورت شعر کہا ” منہ چھپانا پڑ رہا ہے آج کل ۔ سانس بھی لینا بہت دشوار ہے “۔ایک شاعر نے فرمایا ” ایسی بستی سے تو اچھا تھا بیاباں اپنا۔ آدمی سانس تو آسانی سے لے سکتا ہے “۔گویا شاعروں کو فراغت مل گئی ہے اور آن لائن مشاعرے ہو رہے ہیں ۔ اکیڈمی ادبیات کے ہاں سے ہر ہفتے وہاں کے فعال کارکن محمد علی صاحب کا فون آ جاتا ہے کہ آن لائن ادبی پروگرام ہے مشاعرہ ہے پھر اس مشاعرہ کی شاعری کو شائع بھی کریں گے۔ ہم بھی پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں کہ محفل میں جانا آسان ہے اور آن لائن آنا تو زیادہ مشکل ہواجاتا ہے ۔

شاعر حضرات یو ٹیوب اور مختلف چینلوں پر اور پھر اپنے چینل پر اب شاعری کر کے داد سمیٹ رہے ہیں۔محمود شام کا یہ شعر بہت مشہور ہوا ” عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی۔ بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں “۔ انور مسعود نے کہا ” کہاں احباب کی وہ محفلیں اب ۔ کورونا وائرس ہے اور ہم ہیں “۔یہ سعد اللہ شاہ کا شعر ہے کہ ” آٹا بھی نہیں ملتا چینی کا بھی رونا ہے ۔ اندر بھی کورونا ہے باہر بھی کورونا ہے “۔ادریس بابر نے کہہ ڈالا ” ٹینشن سے مرے گا نہ کرونا سے مرے گا۔ اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا“۔ پھر فارس نے کہا ” سب کچھ جو چمکدار ہو سونا نہیں ہوتا۔ ہر چھینک کا مطلب تو کورونا نہیں ہوتا“۔کوٹ ادو سے تعلق رکھنے والے اس مشہورنظم کے خالق ہیں ”بارشوں کے موسم میں تم کو یاد کرنے کی عادتیں پرانی ہیں “۔ ان کا نام شہزل ہے انھوں نے کہا ” دنیا نے بدل ڈالا ہے قانون اچانک۔ اب قرب قضا اور جدائی میں اماں ہے“۔ایمان قیصرانی بھی کیوں پیچھے رہتے ” دل تو پہلے ہی جدا تھے ارے بستی والو۔کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے“۔پھر آخر میں ملتان کی صائمہ نورین کایہ شعر ” کچھ اپنے اشک بھی شامل کرو دعا¶ں میں ۔ سنا ہے اس سے وبا کے اثر بدلتے ہیں “۔