اَفغانستان میں قیام اَمن اور اِس قیام اَمن کی پائیداری کا اِنحصار اُس نفسیاتی و عملی آمادگی پر بھی ہے جس کا مظاہرہ فریق اوّل (افغان سیاسی قیادت) نے کرنا ہے جبکہ فریق دوئم (افغان طالبان) منتظر ہیں کہ قیام امن کی صورت اُس ناممکن کو ممکن کر دکھائیں جو تاحال اندیشوں کی زد میں ہے‘ حقیقت حال یہ ہے کہ اگر افغانستان میں قیام امن کے لئے فریقین ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہوئے تو یہ پاکستان کی کوششوں کے بغیر ممکن نہیں تھا اور بین الافغان مذاکرات کے شروع نہ ہونے میں تاخیر کا دورانیہ بڑھتا چلا جا رہا ہے تو امریکہ نے پاکستان ہی سے درخواست کی کہ وہ اِس تعطل کے حل کے لئے اپنا اثرورسوخ بروئے کار لائے ‘امریکہ سمیت دنیا پاکستان کے مثبت کردار اور اَفغانستان میں قیام امن کی پُرخلوص کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ‘کسی خارجی ملک کے اثرورسوخ سے نہیں بلکہ افغانستان کا امن ’بین الافغان مذاکرات‘ میں پنہاں ہے اور افغان فریقین کے درمیان بات چیت کا عمل جلد از جلد شروع ہونا چاہئے۔رواں ہفتے افغانستان کے اہم قومی فیصلوں کی منظوری و تائید کرنے والے ادارے ”لویہ جرگہ “ نے بڑا فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں بین الافغان امن مذاکرات کے آغاز کی راہ ہموار کرنے کے لئے 400 افغان طالبان قیدیوں کو رہائی کی منظوری دی ہے یہ سبھی قیدی دہشت گردی میں ملوث یا اُس کی سہولت کاری جیسے سنگین جرائم کے تحت افغان حکومت کی زیرحراست ہیں۔ لویہ جرگہ کا اختتامی اجلاس افغانستان کے قومی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہوا‘ جو پاکستان میں ڈش انٹیناکے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے ‘لویہ جرگہ نے مجموعی طور پر 25 نکاتی ایک قرارداد منظور کی‘ جس میں امن عمل میں تیزی لانے کے لئے تجاویز بھی شامل ہیں۔
افغان ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے مناظر حوصلہ افزا ءتھے کہ لویہ جرگہ کے ارکان کی اکثریت نے امن عمل کا خیرمقدم اور حمایت کی تاکہ افغانستان میں باوقار امن آ سکے جو خطے کے استحکام اور تحفظ کے لئے بھی ضروری ہے۔ مذکورہ قرارداد کی دوسری شق لائق توجہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”امن مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹ دور کرنے‘ خونریزی روکنے اور عوام کے قومی مفاد کی خاطر جرگہ باقی ماندہ 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دیتا ہے۔“ تین دن جاری رہنے والے لویہ جرگے میں افغانستان کے 34صوبوں سے قریب چونتیس سو عمائدین شرکت کی۔ طالبان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بین الافغان بات چیت میں ان کی شرکت صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب افغان حکومت ان کے وہ باقی ساتھیوں کو رہا کرتی ہے جن پر دہشت گردی اور منشیات فروشی جیسے الزامات عائد ہیں۔ لویہ جرگے سے اپنے خطاب میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا تھا جرگے کے لئے اگرچہ ’مشکل‘ ہو گا کہ وہ ان چارسو طالبان کے مستقبل کا فیصلہ کرے جنہیں سنگین جرائم میں سزائیں مل چکی ہیں اور وہ اپنی قید کاٹ رہے ہیں۔لویہ جرگہ سے قبل افغان حکومت اُن چھ سو طالبان قیدیوں کو رہا کر چکی ہے جو معمولی جرائم میں ملوث تھے اور اب چارسو قیدیوں کو بھی رہا کر دیا جائے گا جو سنگین جرائم کی سزائیں کاٹ رہے ہیں تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ افغانستان کو طالبان یا سیاسی جماعتیں کس طرح پرامن بنا سکیں گی۔
کس طرح استحکام آئے گا اور سب سے بڑھ کر کس طرح افغان عوام کا اپنے حکمرانوں پر اعتماد بحال ہوگا جبکہ سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سینکڑوں کے حساب سے معاف کر دیا جائے گا اور اِس بات کی ضمانت کون دے گا کہ جن لوگوں کی سزائیں معاف کی گئیں وہ مستقبل میں دہشت گردی اور منشیات کے کاروبار کا حصہ نہیں بنیں گے؟ افغانستان کے محاذ پر تناو¿ صرف 2 فریقین ہی کے درمیان نہیں بلکہ اِن دونوں فریقین کے لئے خطرہ داعش کی صورت تیسرا فریق ہے‘ جو طالبان سے زیادہ بے رحم حملوں میں ملوث رہا ہے اور اگرچہ چند علاقوں میں داعش کے جنگجوو¿ں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے حکومت سے پرامن رہنے کا معاہدہ کیا ہے لیکن جب تک افغانستان کی سیاسی جماعتیں اور طالبان کسی ایسے طرزحکمرانی پر متفق نہیں ہو جاتے جس کے تحت قومی امور کو چلایا جائے اُس وقت تک داعش حملوں کا خطرہ رہے گا اور امن کی چھوٹی بڑی کوششیں ناکافی رہیں گی۔ ذہن نشین رہے کہ افغان طالبان کی جانب سے تصدیق ہو چکی ہے کہ مجموعی طور پر اُن کے 4170 ساتھیوں کو رہا کیا جا چکا ہے اور طالبان اِس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی کے علاوہ یہ بات بھی امریکہ کے ساتھ اُن کے معاہدے کا حصہ تھی کہ ”افغان سرزمین سے تمام غیرملکی افواج کا انخلا چودہ ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔“لویہ جرگہ سے اپنے خطاب میں ایک موقع پر افغان صدر نے کہا کہ ”افغان آئین کے مطابق وہ افراد جن کو سزائے موت دی گئی ہے‘ ان کی سزا معاف نہیں ہو سکتی البتہ کم کر کے عمر قید میں تبدیل کی جا سکتی ہے تاہم ملک نازک موڑ پر کھڑا ہے اور اس موقع پر فیصلہ کرنا آسان نہیں ہو گا لیکن ہمارے پاس اب صرف دو ہی راستے رہ گئے ہیں اور فیصلہ لینے کا وقت آن پہنچا ہے۔