وبا ءکے بعدنیامسئلہ

یہ نہ ہو کہ ایک اور وبا ءکا سامنا کرنا پڑ جائے ‘ایک سے ابھی جان نہیں چھوٹی اور ایک اور بیماری لاحق ہو ‘میں چوہوں کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا کچھ کریں کیونکہ گھر گھر میں ان کے ہاتھوں خلقت عام کا ناک میں دم ہو چکا ہے ‘ ہم توگھر میں ان کے ہاتھوں عاجز آ چکے ہیں ‘کون سی شئے ہے جس کو انھوں نے کترا نہیں ‘ کپڑے انھوں نے برباد کر دیئے اور بجلی کی تاروں اورکمپیوٹر کی کیبل تک کھا گئے ‘ پھر کہیں دکھائی بھی نہیں دیتے ‘قسمت سے ایک آدھ جو نظر آ جائے تو یوں جیسے آسمان پر بجلی تیزی کے ساتھ لپک جاتی ہے ‘آنکھوں کے جھپکنے میں دکھائی بھی دیئے اور نظروں سے اوجھل بھی ہوئے ‘پھراتنی تیزی کہ دیکھنے والا خود اپنی نگاہوں پر شک کرے کہ نہیں یہ چوہا نہ تھا یہ خود میری آنکھوں کا دھوکہ ہے ‘ مجھے ان کی کارستانیوں کے کارن بے بسی کے عالم میں ان کی وجہ سے وہم ہو گیا ہے مگر ہوتا وہ چوہا ہے جو یوں غائب ہواجیسے گدھے کے سر پر سے سینگ ‘ اچھا بھلا پچھلی صوبائی حکومت نے چوہے مارنے کے ماہرین بلا لئے تھے کہ چوہے مار مہم کاآغاز کریں پھر فی چوہا معاوضہ بھی دینے لگے تھے مگر جانے پھر کیا ہوا کہ ان کو شاید چوہوں کے جرگے میں جاناپڑ گیا ہو۔ وہاں یہ آرڈ ر پاس ہوا ہو کہ ان کو تنگ نہ کیا جائے ۔ تب سے پھر کوئی شہری نہ تو کوئی چوہامار کر سرکار کے دفتر میں لے گیا اور نہ سرکار کی طرف سے اس پر اصرار کرنے کا کوئی اخباری اشتہار جاری ہوا۔ ہمارے ہاں چوہے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو مارو تو ہر چوہے کی مرگ پر جو انعام مقرر تھا وہ اگرسرکار دیتی رہتی تو مہینے بھر میں صوبے کا بجٹ ڈانواڈول ہو جاتا۔باوا جی جدھر دیکھو چوہے ہی چوہے ہیں۔ خاص طور پر راتوں کو سڑکوں ‘راستوں میں گلیوں اورمحلوں میں کافی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں ۔

 ایک گھر کے پرنالے سے نکلتے ہیں تو دوسرے کے گھر میں بڑی نالی سے داخل ہو جاتے ہیں بلکہ گھر والے سو جائیں تو کمرے میں بھی آ کر چکر لگاکر چلے جاتے ہیں۔ کوئی چیز نہیں چھوڑتے ۔بلکہ الٹا قرقی کو بھی کھینچ کر دور لے جاتے ہیں ۔ ایک بھاری سی لوہے کی آواز آتی ہے اور اندازہ ہو جاتا ہے کہ چوہا قرقی میں اپنی گردن دے گیا ۔ مگر دیکھا تو رکھا ہو ا ٹماٹر تو اس نے کھا لیا تھا اور قرقی کو خالی چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ بھائی جی زہریلی گولیاں بازار سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر لائیں اور ہر جگہ پھینک دیں ۔ جہاں یہ چھپتے ہیں اور باہر بھی گرا دیں مگر کمالِ مہارت سے یہ گولیاں چٹ کر گئے اور جیتے جاگتے اور دندناتے اور بھی موٹے تازے ہو کر گھومتے گھامتے نظر آ جاتے ہیں۔ہمارے بھائی کو جب چوہا نظر آ ئے تو جلدی سے کمرے کے سارے سوراخ سیل کر کے چوہے کے بھاگنے کے راستوں پر ناکہ بندی کر دیتے ہیں۔اور پانچ منٹ کے آپریشن کے بعد چوہے کا خاتمہ کر کے ہی دم لیتے ہیں ۔ ہم نے بھی بہت کوشش کی مگر یہ تیز طرار اور تیزترین مخلوق ہمارے تو ہاتھ نہیں چڑھتی۔ سوچتا ہو ںکہ اخبار میں اشتہار دوں کہ چوہے کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کا ہنر جاننے والوں کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا اگر وہ ہمار ے چوہے ہمیں پکڑ وا کر دے ۔ باوا جی نے قرقی لگائی ‘پنجرہ لگا یا ‘خود نگراں ہوئے ۔پھر ایک نہیں تین قرقیاں مگر یہ مخلوق وقت کے گزرنے کے ساتھ اتنی ہوشیار ہو چکی ہے کہ ان کو پتہ لگ جاتا ہے کہ ہماری موت کا سامان تیار کر لیا گیا ہے۔

 سو یہ لگائے گئے پھندے کے پاس بھی کبھی نہیں پھڑکتے اور بہت بھوکے ہوں توقرقی سے ٹماٹر اچک کر سرپر پا¶ں رکھ کر نودو گیارہ ہوتے ہوئے پتلی گلی سے رفو چکر ہو جاتے ہیں ۔پھر یہ ایک گھر کی اداس داستان تو نہیں ہر گھر میں ان کے ہاتھوں خواتین حیران و پریشان ہیں بلکہ کچھ خواتین جیسے چپکلی کو نہیں دیکھنا چاہتیں اس طرح چوہا کو دیکھنا تودرکنار چوہے کانام سنتے ہی ان کے جسم میں جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے بلکہ بعض خواتین تو دور سے چوہا دیکھ لیں تو اپنی جگہ کھڑے ہو کر پاگلوں کی طرح اچھلنے لگتی ہیں اور اپنے کپڑے جھاڑناشروع ہو جاتی ہیں۔گھر میں اگر کوئی چیز چوری ہو جائے تو کسی پر الزام لگانے کی ضرورت نہیں۔ چوہوں میں اتنی ہوشیاری آگئی ہے کہ ہر چیز لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔رات کو سوتے ہوئے پر وار بھی کرتے ہیں اور باہر اوپن میں پڑے صابن تک کتر کر کھاتے ہیں ۔ایسی قومیں بھی ہیں جن کی من بھاتا خوراک یہ چوہے ہیں ۔کوریا میں تو شوق سے کھائے جاتے ہیں مگر ہم بلیاں کہاںسے درآمد کریں جو ان کا خاتمہ کریں کیونکہ بلی کے کرتوت کون سے اچھے ہیں پھر چین والے تو بلیاں اور چمگادڑیں کھاتے ہیں ‘اس لئے بلیاں بھی نایاب ہوئی جاتی ہیں۔پھر ان میں کورونا وائرس بھی تو ہو سکتا ہے ۔ ان چوہوں کو گلی کے ہر گھر کی سیر کرنا آتی ہے ۔