وزیرخارجہ کادوٹوک موقف

 کسی بھی ملک کی جانب سے کسی دوسرے ملک یا کسی بین الاقوامی تنظیم کے بارے میں جب بھی کوئی بیان یانقطہ نظر دیاجاتا ہے تو اس میں انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیر زبر تک کا خیال رکھا جانا ضروری سمجھاجاتا ہے ‘ پچھلے دنوں ہمارے وزیر خارجہ جن کو ایک پیشہ ور اور ڈپلومیسی کے رموز سے اعلیٰ پائے کی واقفیت کا حامل وزیر سمجھا جاتا ہے کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے وزراءخارجہ کا اجلا س بلانے میں سرد مہری کے اظہار پر مبنی سخت ردعمل سامنے آیا ہے‘یاد رہے کہ ایک نجی ٹی وی چینل سے حال ہی میں بات چیت کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کی بار بار درخواستوں کے باوجود او آئی سی کا وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے میں لیت ولعل سے کام لینے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہمارے باربار کے مطالبے کے باوجود او آئی سی کے وزراءخارجہ کا یہ اجلاس طلب نہیں کیا جاتا تو پاکستان ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کرنے پرمجبور ہو گا جو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں‘ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اس طرح کے بیانات پر روٹین سے ہٹ کرہمارے دفتر خارجہ نے بھی اپنے ایک بیان کے ذریعے شاہ محمود قریشی کے موقف کا اعادہ کیا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وزیر خارجہ کا یہ حالیہ بیان دراصل ریاستی پالیسی کا عکاس ہے۔

 جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ موجودہ حکومت ماضی کی روایتی خارجہ پالیسی سے ہٹ کر زیادہ جارحانہ طور پر تمام تر زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر سمیت عالم اسلام کو درپیش تمام مسائل پرایک جاندار اور عوامی امنگوں کا ترجمان سٹینڈ لینے کے موڈ میں نظر آتی ہے‘اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تنازعہ کشمیر کو حل کرنے میں دلچسپی نہ لینے پر موجودہ حکمرانوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے اور ان کی جانب سے اپنے دیرینہ دوست سمیت دیگر عرب دوستوں کو پیغام دیا جارہا ہے کہ انہیں 80لاکھ سے زائد کشمیریوں کی زندگی ‘ موت اور تکمیل پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کے حامل اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہندوستان پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنا ہوگابصورت دیگر ان کے پاس بہ امر مجبوری بعض دیگربااثرغیر عرب برادر اسلامی ممالک جن میں ترکی‘ایران‘ انڈونیشیااورملائشیا قابل ذکرہیں سے رجوع کا آپشن کھلا ہے ‘یہ بات بجا ہے کہ ماضی بعید میں عرب ممالک ہمیشہ کھل کر فلسطینیوں اور کشمیر یوں کی جدوجہد کی حمایت کرتے رہے ہیں لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان دنوں ہمارے بہت سارے عرب دوست ممالک ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی راہ پرنہ صرف گامزن ہیں بلکہ انہیں یہ سب کچھ کشمیر اور فلسطین کی قیمت پر کرنے میں بھی کوئی عذر لاحق نہیں ہے ۔

جو یقینا پاکستان جیسے ایک خالصتاًاسلامی نظریاتی مملکت کے لئے قابل قبول نہیں ہے ‘دراصل یہی وہ محرک ہے جس نے پاکستان کواپنے دیرینہ عرب دوست ممالک کے خلاف حالیہ غیرروایتی حکمت عملی اپنانے کا راستہ دکھایاہے‘ واضح رہے کہ کچھ عرصے سے بعض اسلامی ممالک کا بھارت کی جانب نہ صرف واضح جھکاﺅ دیکھنے میں آیا ہے بلکہ یہ ممالک بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کے اقتصادی اور تجارتی معاہدے بھی کرچکے ہیں‘اس لئے مبصرین کا کہنا ہے کہ او آئی سی کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب نہ کرنے کے پیچھے ایک بڑی وجہ بعض اسلامی ممالک کابھارتی دباﺅکے زیر اثر ایسا نہ کرناہے جس پر پاکستان کی ناراضگی فطری ہے ‘یہاں ہمیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اس وقت اسلامی دنیا میں او آئی سی کے ساتھ ساتھ متعدد جیوسٹریٹجک بلاک بھی قائم ہیںجن میں خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب اور مصر امریکہ کے ساتھ منسلک ہیں۔ قطر اور ترکی اپنی الگ راہوں پر گامزن ہیں لہٰذا ایسے میں پاکستان کو اپنی سابقہ نیم دلانہ خارجہ پالیسی کی بجائے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے متذکرہ اسلامی بلاکوں میں سے کسی ایک گروپ کا حصہ دار بننا ہوگا اور یا پھرایک نظریاتی اور ایٹمی قوت نیز ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین کا تزویراتی شراکت دار ہونے کے ناطے آگے بڑھ کر اسلامی دنیا کی قیادت خود اپنے ہاتھ میں لینا ہوگی ۔