پچھلے زمانے میں ہمارا بچپن ایسی صورتحال میں یوں گزرا کہ ہم سڑکوں پر کھڑے ہو کر بارش کی تمنا میں خیر خیرات کے لئے راہگیروںسے چندہ وصول کرتے اور پھر شربت بنا کر مفت میں تقسیم کرتے تاکہ ابرِ مہربان ہو اور اس خیرات کو ایک درخواست سمجھا جائے۔ ان دنوں بادل آتے ہیں کیوں نہیں آتے ۔پشاور کی سن گن لے جاتے ہیں۔ حالات کاجائزہ لے لیں تو پھر کسی نتیجے پرپہنچیں گے برسیں گے خوب برسیں گے ۔ کیونکہ باقی صوبوں میں تو بارشوں نے وہ تباہی مچائی ہے کہ اب تو پشاور میں بارش ہونے کی دعا کرتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے ۔ ایسا نہ ہو بادل اپنا باقی کا غصہ ہم پر نکال دیں۔کیونکہ بارش نہ ہو تو دعا کرنا پڑتی ہے اور پھر ہو تو ایسی جم کر ہو کہ جیسے کراچی اور لاہور اور کوئٹہ کی دھرتیاں اس ابرِ باراں سے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں تو پھر دوبارہ دعا کرنا پڑتی ہے کہ اب بارش رک جائے۔ انسان بھی کسی حال میں خوش نہیں‘کاش بارش ہو جائے ۔اے ساون کے بادلوں سورج سے جا کہو کہ اپنی اٹھلاتی ہوئی گرمی کی لہروں میں کچھ کمی بیشی کرے ۔کچھ گذارا کرے۔ کیونکہ زمین زادے جھلسے چلے جا تے ہیں ۔اگر چار گھڑی برسے یا بڑی برسے لیکن تھوڑی تو برسے ۔ کیونکہ اس انتظار میں آنکھوں سے جھڑی برس نہ جائے کہ آنکھیں بھیگ جائیں تاکہ آسمان سے بادلوں کو راہداری کا پروانہ جاری ہو۔” یونہی گر روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں ۔ دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں“ یہ کیفیت تو باقی کے تین صوبوں میں ان دنوں موجود ہے کہ چیف جیٹس بھی کراچی جا پہنچے ہیں اور میئر کو اپنی رجسٹری میں طلب کر کے باز پرس کرتے رہے ۔ مگر ہم تووہ بارش نہیں چاہتے ہم تو تھوڑی چاہتے ہیں کہ ہمارا کام نپٹ جائے اور کسانوں کو جو بوائی کر کے سوئے آسمان دیکھتے جاتے ہیں راحتِ جاں محسوس ہو ۔ ان کے راشن پانی کا بندوبست بھی ہو جائے ان کے بچے بھی شاداب ہو جائیں زریاب ہو جائیں۔دن کو بادلوں کا وفد سرِ آسمان آ کر سورج کی روشنی کے آگے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے ۔ مگر مسلسل ایسا نہیں ۔شاید بادلوں میں ابھی تک اتنی پختگی نہیں آئی جو اس زور سے برسیں کہ دل خوش ہو جائے ۔
مگر اتنا نہیں برس پائیں کہ دل کو اپنی تباہی کی وجہ سے الٹا ناراض کر جائیں۔ بارش میں بعض دل تو اداس ہوتے ہی ہیں کہ بعض زیادہ احساس رکھنے والے لوگ بارش کے قطروں کو اپنے آنسو¶ں کی لڑی کے ساتھ ایک جا باندھ دیتے ہیں ۔ انھیں جانے کہاں کہاں کی یاد ستانے لگتی ہے ۔بارش میں کسی ستم ساز کی یاد آجائے تو اس کو روکا بھی تو نہیں جا سکتا ۔ ان دنوں اپنا شہرِ گل و ارغواں بارش سے محرومی کے دن گذار رہا ہے ۔ہوا میں نمی تو دو ایک دن سے محسوس ہو رہی ہے۔ کیونکہ آر پار بارشیں ہیں او رخوب ہیں۔ ان بارشوں کے ٹھنڈے میٹھے اثرات اس شہر کی سوہنی دھرتی پر بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔ مگر کیا اچھا ہو کہ دو ایک چھینٹے یہاں بھی پڑیں تاکہ پیاسی زمین اپنے دل کی بھڑاس نکالے ۔سوئمنگ پول تو کھلے ہیں اور وہاں بیماریوں کے حاصل کرنے کولوگ جا کر نہا کر آتے ہیں اور سو طرح کے جراثیم ساتھ گٹھری میں باندھ لاتے ہیں ۔ پھر بچے ہیں جو گندی نہروں میں نہا کر نہال ہوتے ہیں شاداب ہوتے ہیں۔مگر گرمی کہاں جانے والی ہے ۔یہ تو اپنے وقت مقررہ پر جائے گی ۔ لیکن آج کل میں بارش ہو جائے تو ہمارا دل بھی بھی سویرے کی کرنوں کا سنہرا جام ہو جائے۔ صبح اٹھیں تو زمین اور کھیت اور سڑکیں بارش کے پانی سے صاف ستھری ہو چکی ہوں۔
یہ سبزہ و گل یہ کھڑی فصلیں جو دھول مٹی اور گردو غبار سے اٹی ہوئی ہیں صاف ستھری ہو کر نکھر نکھر جائیں۔ ہمیں کچھ توریلیف ملے ۔مگر قدرت کے اپنے کام ہیں جن میں ہمارا دخل دینا معقولیت نہیں ۔موجودہ وقت میں سوکھے کا راج ہے اور سڑکوں پر دن چڑھے سناٹا چھا جاتا ہے ۔ ہاں شام پڑتے ہی شہرِ سبزہ و گل میں ہل چل حرکت اور رونق بحال ہونا شروع ہوتی ہے اور رات گئے بعض شہری بازاروں اور سڑکوں پر انجوائے کرتے ہوئے پاتے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اس وقت دن بھر کا جھلسا دینے والا سورج آشیانہ ¿ مغرب میں جا کر پوشیدہ ہو جاتا ہے ۔ اس لئے کہ اگلی صبح کو گرما گرم کر کے پیش کرنے کی تیاری کرے۔ایسا نہ ہو ” اٹھاجو صبح خواب سے وہ مستِ پر خمار۔ خورشید کف کے بیچ لئے جام آگیا“بلکہ صبح اٹھیں تو بادل چھائے ہوں اور چھینٹے پڑیں ۔ تادمِ تحریر توآسمان کا وال پیپر گرم ہے دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے ۔