اندون لاہور کا مڈل کلاس لڑکا ، مغربی انڈسٹری کا ہیرو جب ایک دہائی قبل پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے داتا دربار کے علاقے سے ایک 18 سالہ نوجوان تعلیم کے غرض سے لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن وہ بین الاقوامی ماڈل بن جائے گا۔ دنیا بھر سے برطانیہ میں تعلیم کے غرض سے آنے والے طلبہ کی طرح محمد علی سبحانی بھی لندن کی ایک سپر مارکیٹ میں پارٹ ٹائم کام کر رہے تھے،
تو قسمت نے ان پر مہربان ہونے کی ٹھانی اورایک خاتون گاہک نے ان سے ان کی عمر اور نام پوچھا اور تیسرا سوال یہ کیا کہ کیا انھوں نے کبھی ماڈلنگ کے بارے میں سوچا ہے۔ اس پر علی نے ہنس کر نفی میں جواب دیا۔انھوں نے دوبارہ علی سے پوچھا کہ اگر موقع ملے تو آپ کو اس میں دلچسپی ہو گی، جس پر انھوں نے ہاں کی اور وہ ان سے ان کا نمبر اور ای میل لے کر چلی گئی۔ علی نے روز ملنے والے ہزاروں گاہکوں کی طرح اس گاہک اور ان سے ہونے والی گفتگو کو بھلا دیا اور اپنی شفٹ ختم کر کے گھر چلے گئے۔ 'میں نے سوچا کہ شاید یہ خاتون مجھ سے مذاق کر رہی تھی۔ مجھے ایک لحاظ سے اچھا بھی لگا کیونکہ کبھی کسی نے اس طرح کی بات نہیں کی تھی۔'
جب وہ صبح اٹھے تو انھیں ایک ماڈلنگ ایجنسی کی طرف سے ای میل آئی ہوئی تھی جس میں انھیں وسطی لندن کے ایک دفتر میں ایک غیر رسمی انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا۔ علی کی ا±س دن چھٹی تھی اور وہ تیار ہو کر اس ایجنسی کے آفس پہنچ گئے۔ وہاں انھیں پانچ دس منٹ انتظار کرنا پڑا اور تھوڑی ہی دیر بعد ان سے سیکریٹری نے کہا کہ وہ اندر جا سکتے ہیں۔ 'میں اندر گیا تو وہاں دیواروں پر میگزین کی انتہائی بڑی تصاویر لگی ہوئی تھیں اور میز پر متعدد ایوارڈ بھی رکھے ہوئے تھے، اندر کا آفس خاصا پرتعیش دکھائی دیا۔ میز کے پیچھے وہی خاتون بیٹھی تھی جو مجھے ایک دن پہلے مارکیٹ میں ملیں۔'
انھوں نے علی کو اپنا نام اور پیشہ بتایا اور کہا کہ ان کی ایجنسی علی کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے۔ علی نے فوراً سینزبریز میں اپنی موجودہ نوکری کے بارے میں بتایا اور کہا کہ یہ بہت مشکل سے ہوئی ہے۔'میں دوسرا کام نہیں کر سکتا کیونکہ اس سے ہونے والی آمدن سے میرا خرچہ چلتا ہے۔' خاتون مسکرائیں اور پوچھنے لگیں کہ ایک ماہ میں کتنا کما لیتے ہو۔ علی نے جواب دیا آٹھ سو پاو¿نڈ۔ اس رقم سے ان کا کرایہ اور کھانے پینے کے اخراجات پورے ہو جاتے تھے جبکہ فیس کے پیسے وہ پاکستان سے جوڑ کر اپنے ساتھ لائے تھے۔ خاتون ایک مرتبہ پھر مسکرائیں اور اپنی عینک نیچے کرتے ہوئے کہنے لگیں 'اس سے زیادہ رقم صرف ایک فیشن شو کر کے مل جائے گی اور وہ بھی ایک کام کے لیے۔' علی چپ ہو گئے اور سوچنے لگے کہ پتا نہیں یہ خاتون میرے ساتھ مذاق کررہی ہے یا سچ کہہ رہی ہے۔'میں نے پاکستان میں دوستوں سے ماڈلنگ کے حوالے سے جعل سازی کے بارے میں سنا ہوا تھا لیکن پھر میں نے سوچا کہ اتنا بڑا دفتر ہے، اور یہ عورت ٹھیک ٹھاک ہی لگ رہی ہے۔ کیوں میرے ساتھ مذاق کر کے اپنا اور میرا وقت ضائع کرے گی۔' علی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ خاتون نے کہا کہ وہ انھیں سائننگ فیس کا چیک آج ہی دے دیں گی، جبکہ'ہم تمھیں اسی ہفتے دو پراجیکٹس ایسے دیں گے جس سے تمھاری ایک ہزار پاو¿نڈ تک کی آمدنی ہو جائے گی۔ کام صرف دو سے تین دن کا ہو گا۔ کیا اس سے تمھیں تسلی ہو گی؟' ایک ہزار پاو¿نڈ علی کے لیے بڑی رقم تھی، اس نے سوچا کہ کچھ پیسوں سے وہ ایک دو ماہ کا راشن وغیرہ اور دوسری چیزیں لے آئیں گے۔ علی نے فوراً ہاں کی لیکن یہ کہا کہ انھیں اپنی نوکری کی جگہ پر 30 دن کا نوٹس دینا ہو گا۔ جس پر خاتون نے کہا کہ کوئی بات نہیں اتنی دیر میں ہم تمھارا 'پورٹفولیو' بنا لیں گے۔ ماڈلنگ کی زبان میں پورٹفویلو کا مطلب ان کا شائع ہونے والا کام یعنی کے تصاویر ہوتی ہیں۔ نئے ماڈلز کے پاس کام دکھانے کے لیے نہیں ہوتا اسی لیے ان کا پورٹفولیو ایجنسی تیار کرتی ہے۔ دوسرے دن علی کی تصاویر اور ان کے جسم کی ناپ لینے کے بعد انھیں ایک فارم دیا گیا جس میں ایک خانے میں ان کی نسل پوچھی گئی۔
علی نے وہاں پاکستانی لکھ دیا، اور اپنا پورا نام محمد علی سبحانی لکھا۔ جب خاتون نے ان کا فارم پڑھا تو ان سے کہا کہ وہ پاکستانی نہیں کچھ اور لکھ دیں۔ اس کے علاوہ اپنا نام بھی چھوٹا کریں۔ 'میں نے انھیں دیکھا اور کہا کہ میں پاکستانی ہوں اور پاکستانی نہیں لکھوں گا تو کیا لکھوں گا۔ اور میرا کوئی دوسرا نام نہیں ہے۔' اس پر خاتون نے علی سے کہا کہ انھیں ان کے پاکستانی ہونے یا لکھنے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن کلائنٹس اپنے پراڈکٹش کی تشہیر کے لیے مغربی ماڈلز کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ اور دوسری چیز یہ کہ ان کا نام بہت بڑا ہے اور سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آپ مشرقی ماڈل نہیں ہیں۔ 'انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ نسلیت کے خانے کو پر نا کریں لیکن جب بھی فیشن شو یا شوٹ کے درمیان آپ سے کوئی آپ کی نسل کے بارے میں پوچھے تو آپ انھیں اطالوی، یونانی یا ہہسپانوی بتائیے گا۔' پھر انھوں نے علی سے کہا کہ وہ اپنے نام کو چھوٹا کر دیں۔ خاتون نے کہا کہ بچپن میں انھیں کس نام سے بلایا جاتا تھا تو انھوں نے کہا کہ سکول میں مجھے کرکٹ میں اچھا ہونے کی وجہ سے مختصراً چیمپ کہتے تھے جو کہ لفظ چیمپیئن سے نکلا ہے۔ اس پر خاتون نے کہا کہ 'چیمپ امی' نام کیسا ہے۔ تو علی نے کہا کہ انھیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر ان سے کسی نے ان کا اصل نام پوچھا تو وہ بتا دیں گے۔ 19 برس کے علی کو پھر بھی سمجھ نہیں آئی کہ انھوں نے ایسا کیوں کہا۔ جب ایک ہفتے بعد وہ اپنے پہلے فیشن شو، لندن فیشن ویک پر گئے تو وہاں ان کے سوا کوئی بھی دوسرا ایسا شخص نہیں تھا جو کہ جنوبی ایشیا سے ہو۔ یہاں انھیں مغربی ماڈلنگ کی دنیا کی ریت و روایات کا اندازہ ہوا۔ 'وہاں زیادہ تر سفید فام لوگ تھے۔ ماڈلز میں ایک سیاہ فام اور ایک چینی لڑکی تھی، مجھ سے جب لوگوں نے پوچھا کہ میں کہاں سے ہوں تو میں نے لندن بتایا اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ 'انھوں نے دوبارہ سوال کیا تومجھے تھوڑا غصہ آیا اور میں نے کہا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں کہاں سے ہوں یا میری نسل کیا ہے۔
میں یہاں آپ سب کی طرح کام کرنے آیا ہوں۔' آنے والے پانچ سالوں میں چیمپ امی نے لندن فیشن ویک، میلان فیشن ویک اور پیرس فیشن ویک جیسے بڑے شوز میں ان کی ابتدا اور اختتام کیا۔ اسے ماڈلنگ کی زبان میں اوپن اور کلوز کہا جاتا ہے اور یہ وہی ماڈلز کرتے ہیں جن کا انڈسٹری میں نام ہو۔ 2014 میں چیمپ امی برطانوی ووگ میگزین میں آنے والے پہلے پاکستانی ماڈل بنے۔ سنہ 2016 میں وہ ہارپرز بزار، ہفنگٹن پوسٹ اور مردوں کی بڑی میگزین جی کیو میں بھی آئے۔ ساتھ ہی انھیں پاکستان سے بھی آفرز آنا شروع ہو گئیں اور وہاں صرف چار ماہ کام کرنے کے بعد انھیں 2018 میں لکس سٹائل ایوارڈ میں بیسٹ میل ماڈل کے لیے نامزد کیا گیا۔ معروف پاکستانی فوٹوگرافر شہباز شازی، جو کہ 17 سال سے پاکستان میں کام کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ علی کی پوزنگ اور ان کے کام کرنے کے انداز کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ 'ان کی پوزنگ کا انداز مغربی ہے، اور وہ بہت پروفیشنل اور پولشڈ ہیں۔ اتنے منجھے ہوئے ماڈل جو کہ مغربی اور مشرقی دونوں طری کے کام اور دونوں قسم کی انڈسٹریز میں کام کرتے ہوں، نہ ہونے کے برابر ہیں۔' علی کا کہنا ہے کہ اس کا کریڈٹ ان کی ایجنسی کو جاتا ہے جنھوں نے بہت عرصہ انھیں نہ صرف تیاری کروائی بلکہ ماڈلنگ کے گر بھی سکھائے۔
'شکل اللہ کی دین ہے۔ امی ہمیشہ مجھے یہ کہتی کہ میں بہت پیارا ہوں اور میری شکل بہت اچھی ہے لیکن میں نے ہمیشہ اسے ماں کا پیار سمجھا کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں اپنے چہرے کی وجہ سے پیسے اور شہرت کماو¿ں گا۔' 'لیکن میں نے بہت محنت کی ہے، ماڈلنگ کے حوالے سے ہر ایک چیز سیکھی ہے۔' ایک حالیہ تحقیق کے مطابق برطانیہ میں فیشن اور آرٹس میں کام کرنے والے غیر سفید فام لوگوں کی شرح صرف ایک اعشاریہ دو فیصد ہے۔ علی کہتے ہیں کہ اب صورتحال مختلف ہے اور بہت سے ماڈلز سامنے آ رہے ہیں لیکن ایشیائی ماڈلز کے لیے مغرب میں کام کرنے کے لیے انھیں جس مسئلہ کا عموماً سامنا ہوتا ہے وہ مہارت اور خود اعتمادی ہوتا ہے۔ 'مغرب میں پوزنگ کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ آپ کو یہ علم ہونا چاہیے کہ آپ کے سامنے فوٹوگرافر جس زاویے سے شاٹ لے رہا ہے آپ اس زاویے سے کیسے نظر آتے ہیں اور اسے مزید کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔ 'میں نے اس کی گھنٹوں پریکٹس کی۔ آپ جو کام کر رہے ہیں، اس کے بارے میں آپ کو مکمل معلومات ہونی چاییے لیکن ایک اور اہم چیز خود اعتمادی کی ہے، اگر آپ کے چہرے یا آپ کے انداز میں ہلکی سی بھی جھجک ہوگی تو کیمرے کے پیچھے فوٹوگرافر اسے فوراً پکڑ لے گا اور پھر یہ باتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ فلاں ماڈل کی پوزنگ کمزور ہے۔' علی اب مانچسٹر میں رہتے ہیں جہاں سے وہ اداکاری میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ وہ اب، مغربی فلم انڈسٹری میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہی ان کی اگلی منزل ہے۔ علی کا کہنا ہے کہ 'جب اندرون لاہور کے ایک مڈل کلاس گھر کا لڑکا جس کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، یہاں تک پہنچ سکتا ہے تو میرے خیال میں دوسرے لوگ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔'