خوشخبری یہ ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے مسلسل تین ماہ خسارے کا شکار رہنے والی پاکستان کی برآمدات میں قریب چھ فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اِس اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان نے اپنی برآمدات میں اضافے کےلئے غیرروایتی اشیاءتیار کیں اور عالمی منڈی میں طلب کو مدنظر رکھا جو اپنی جگہ دانشمندانہ حکمت عملی ہے اور اِسی کے سبب کورونا خسارہ منافع میں تبدیل ہوا ہے۔ خوش آئند ہے کہ جولائی کے مہینے میں پاکستان کی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا جو لگ بھگ چھ فیصد تک رہا۔ پاکستان سرجیکل آلات‘ کھیلوں کی مصنوعات‘چاول‘ پھل‘ چمڑے سے بنی مصنوعات برآمد کرتا ہے لیکن عموماً برآمدی شعبے میں سب سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل اور ملبوسات جیسی مصنوعات کا ہوتا ہے اُور یہ حصہ داری پچپن فیصد سے زیادہ ہے۔ حالیہ دنوں میں‘ کورونا وبا کے بعد پاکستان میں ماسک‘ وینٹی لیٹرز‘ جراثیم کش محلول بڑے پیمانے پر برآمد ہوا ہے جبکہ خطے کے دو ممالک جن کی برآمدات پاکستان سے زیادہ ہوتی ہیں موجودہ حالات میں اُن کی برآمدات میں کمی آئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ جولائی کے مہینے میں بھارت کی برآمدات 13.7فیصد جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات 17فیصد کم رہیں۔ پاکستان کی برآمدات میں اضافے کی وجوہات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہمارے ہاں بھارت و بنگلہ دیش کے برعکس لاک ڈاو¿ن نرمی سے نافذ کیا گیا اور اِسے جلد اُٹھا بھی لیا گیا جبکہ بھارت و بنگلہ دیش نے اپنے ہاں لاک ڈاو¿ن جاری رکھے جس کی وجہ سے اُن کے برآمدی شعبے کی کارکردگی متاثر ہوئی اور وہ بیرونی آرڈرز پر بروقت ادائیگیاں نہ کرسکے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو پاکستان کے برآمدی شعبے نے پُر کیا اور یہی کامیاب حکمت عملی کا وہ مضبوط پہلو ہے جس پر آئندہ بھی عمل ہونا چاہئے اور منڈی کی طلب پر نظر رکھتے ہوئے اُس موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہئے جو کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہوا ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے آنے والے دنوں میں پاکستانی برآمدات میں اضافے کا یہ رجحان برقرار رہے گا۔
جولائی کے مہینے میں پاکستانی برآمدات میں جو اضافہ ہوا اُس میں ٹیکسٹائل مصنوعات کا حصہ چودہ فیصد سے زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس اضافے کو زیادہ قابل ذکر نہیں سمجھا جا رہا کیونکہ یہ کئی گنا زیادہ ہونا چاہئے تھا۔ برآمدات میں حالیہ اضافہ دراصل اضافہ نہیں بلکہ یہ رکے ہوئے برآمدی آڈرز تھے جو دنیا بھر میں لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے معطل تھے اور بیرونی خریدار اپنا آڈر کیا ہوا مال اٹھا نہیں پا رہے تھے اور کئی ماہ کے انتظار کے بعد برآمد ہونے والا مال برآمدات میں اضافہ قرار دیا جا رہا ہے تو یہ صورتحال کا ایک منفی پہلو سے جائزہ ہے اور یہ حقیقت اپنی جگہ تلخ ہے کہ گزشتہ تین مہینوں میں پاکستان سے برآمدات نے جس بڑے خسارے کا سامنا کیا اس کے مجموعی خسارے کے سامنے یہ چھ فیصد اضافہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ذہن نشین رہے کہ سالانہ اقتصادی جائزے میں ذکر کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کا رواں مالی سال کے دوران بائیس سے چوبیس ارب ڈالر کی برآمدات ہونی چاہئیںلیکن سال کے چار ماہ ضائع ہونے کے بعد اگر ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی تیاری کی صنعت پوری طرح بحال ہو بھی جائے تو اِسی روایتی صنعت سے برآمدات میں اضافہ متوقع ہوگا اور پاکستان کا انحصار روایتی شعبوں پر ہی لوٹ آئے گا۔
دوسری طرح بنگلہ دیش کی سالانہ برآمدات پاکستان سے زیادہ یعنی چالیس ارب ڈالر سے زیادہ ہیںاور بنگلہ دیش بھی پاکستان ہی کی طرح ٹیکسٹائل اور گارمنٹس میں برآمدات کرتا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ بنگلہ دیش کی برآمدات کا انحصار پاکستان سے آنے والے خام مال پر ہے اور جب پاکستان سے خام مال برآمد نہیں ہو رہا تو بنگلہ دیش کی برآمدات کم ہوئی ہیں لیکن کورونا وبا کی وجہ سے حالات معمول پر آنے کے بعد بنگلہ دیش کی واپسی ہونا قطعی غیرمتوقع نہیں ہوگی۔ اگر پاکستان کی برآمدات میں اضافہ مقصود ہے تو حکومت کو کم سے کم صنعتی شعبے کو اُس مساوی تناسب سے رعایت دینی چاہئے جو بنگلہ دیش کی جانب سے فراہم کی جا رہی ہے۔ اگر بنگلہ دیش کی صنعتوں کو پاکستان کے مقابلے پچاس فیصد کم قیمت پر بجلی فراہم کی جاتی ہے تو وہ جواباً ملک کو چالیس ارب ڈالر سالانہ کا زرمبادلہ کما کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں وہ سب آخر کیوں ممکن نہیں‘ جس سے ایک دنیا فائدہ اُٹھا رہی ہے؟ ۔