لاک ڈان تو ضرور ختم ہوا ہے مگر کورونا ختم نہیں ہوا۔پیاروں نے خوشیاں منانا شروع کر دیا ہے ۔ وہ تو چین کاشہرووہان تھا جہاں سے یہ وائرس نکلا اور وہاں سب سے پہلے ختم بھی ہوا۔ وہاں جشن منائے گئے۔ مگر ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ یہ سانپ دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔ اس لئے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ اس بیماری نے تو سب کچھ برباد کر دیاہے ۔تینوں صوبوں میں جو سیلاب کی سی فضا ہے اس نے وہ کچھ تباہ نہیں کیا جو کورونا نے ایک سو پچاس دنوں میںجاتے ہوئے دریا کے حوالے کر دیا ہے ۔کاروبار پر تو بہت بڑی زد پڑی ہے اور رزق روزگار پر اس کے وار سے بدن میں سیروں خون خشک ہوا کہ کاٹو تو جسم میں لہو نہیں ۔ بھرے ہاتھ اس طرح خالی خولی رہ گئے کہ الٹے ہوکر خود امداد کے طلب گار ہوئے۔ بہت میٹھے پیارے اور بہت عزیزِ جاں لوگ اس ریلے میں یوں بہہ کر ہمیشہ کے لئے دور چلے گئے کہ تلاش کرو تو خود کھو جا¶۔جو پھول اجل نے اس گلشنِ بے خار سے چن کر ویرانے میں لے جا کر رکھے ان کی یاد کہاں بھلائی جا سکتی ہے ۔ مگر ان کو یاد کر کے موجودہ طور پر ہمارے ارد گرد کے عزیز تر رگِ جاں کے قریب جو لوگ ہیں ان کو گم نہ کردیں۔ لاک ڈان کے خاتمے کا مطلب اگر غلط لیا جا رہا ہے تو درست نہیں ۔ اگر آپ کے ہاتھ میں کسی نے لائسنس والا پستول تھما دیا تو مطلب یہ نہیں کہ آپ کو آزادی بھی دی کہ جسے چاہو نیلی نال کے شعلوں میں جلا ڈالو۔اگر عقل ملی تو انسان کو ملی ہے ۔جانوروں کی کھوپڑیا میں دماغ تو ہے مگر آدم زاد کے دماغ میں تو ذہن بھی ہے ۔
جس کے نتیجے میں وہ ہر جانب غور و فکر کرتا ہے ۔شادی ہال ابھی کے ابھی کھل جائیں گے جن میں خوشیوں کے شادیانے تو بجیں گے مگر ساتھ ہی ان گیدرنگ ہالوںمیں چالیسویں اور برسیاں بھی منائی جائیں گی اور بین بھی ہوگا۔ ویڈنگ ہال والوں کو پابند کیا ہے کہ کھانا میز پر کھائیں اور دور رہ کر بیٹھیں گے۔میرج ہال کا یہ ضابطہ اگر نہ اپنایا گیا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم پھرسے پانچ ماہ اور کورونا کے کارن لاک ڈا¶ن ‘سمارٹ لاک ڈا¶ن پھر ٹارگٹڈ لاک ڈان اور سپاٹ لاک ڈان نام کی بلاں کو گلے لگائیںگے۔شادی ہالوں میں ہر چیز کا خیال رکھا جائے گا۔ اگر بالفرض اس آزادی کو مادر پدر آزاد زندگی تصور کر کے خوب کھل کھیلےں گے۔پھر پھول کھلانے کے بجائے گل کھلائیں گے توعالمی صحت کے ادارے کے انچارج کے دفتر سے ہمارے وطن کے نام کوروناکی پابندیو ںکی نئے طرز کی راہداری جاری کر دیں گے۔ کوشش ہماری ہو کہ یہ عبرت کا درس ہم دوبارہ نہ لیں ۔ اس کے لئے وہی سماجی دوری اور ماسک اور دن کی روشنی میں اگر ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے تو کیا اچھا ہو۔ یہ نہ ہو کہ ہمیں پھر شہر سے زیادہ ویرانے اچھے لگنے لگیں۔ جہاں کوئی نہ ہو ۔غالب کے بقول ” رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو ۔ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو ۔بے درو دیوار سا اک گھر بنانا چاہئے۔ کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو۔پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار۔اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو “۔ یہ غزل غالب نے دو سو سال پہلے کہی تھی ۔ مگر اس میں جو کرب بیان ہوا ہے وہ دو ہزار بیس پر خوب برابر آتا ہے ۔
ہمیں اس سے عبرت لینا ہے کہ دنیا بھر میں اس وائرس کے عروج کے دنوں میں ہمارے توجنازے پڑھنے والا کوئی نہ تھا اور ہمارے جنازوں میں شرکت کرنے والے بھی نہ تھے پھر اگر تھے تو ایک دوسرے سے اتنے دور کہ پاس رہ کر بھی ہم ان سے بات کرنے کے قابل نہ تھے ۔کیونک منہ پر ماسک اور اگر ماسک نہ تھا تو باتوں کے ذریعے بھی جب ہوا میں یہ جراثیم مسافری کرتے ہیں تو کسی کی آنکھ اور ناک اور منہ کے ذریعے داخل ہو کراسے جنازے کے بعد ایک اور جنازے کے فریم کی شکل دے سکتے ہیں‘آج سے قریب پچیس سال پہلے جب ہندوستان میں طاعون کی چھوت کی بیماری پھوٹ پڑی تو باہر ملکوں کے ہوائی جہازوں نے وہاں کی سر زمین پر اترنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر انڈیا کی کوئی فلائٹ کسی اور ملک بھی نہیں جا سکتی تھی۔یہ میرے سامنے کی بات ہے اور میری عمر کے لوگوں کو یاد ہوگی۔ پھر اس حد تک کہ انڈیا کی فضا پر سے بیرون ملک کے ہوائی جہازوں کو بھی بھارت کے اوپر سے گزر کر دوسرے ملک جانے میں کراہت محسوس ہونے لگی کہ کہیں طاعون اتنی اونچی اڑان بھر کے بجلی کی طرح تیز جانے والے ہوائی جہازوں کے بیرونی حصوں پر چپک نہ جائے۔جب یہ حال ہو تو ہمیں اس سلسلے میں احتیاط کرناہے اور اپنے پیاروں کے پیارے چہرے یاد کرنے ہےں جو زمین اوڑھ کر قبر کے خالی فریم میں تصویر کی شکل میں سجا دیئے گئے ۔