ہمارے اندر خرابیاں بہت ہیں ۔ جن کا اظہار گاہے گاہے ہوتا رہتا ہے۔ ہم لاکھ کوشش بھی کریں مگر ان سے چھٹکارا نہیں پا سکتے ۔کیونکہ ہمارا اصل مسئلہ سمجھ بوجھ اور شعور کی کمی ہے ۔پڑھ لکھ لینے اور ڈگریاں حاصل کر لینے سے بندہ بہت کچھ بن جائے گا مگر جسے سمجھ کہتے ہیں اس چیز کاانسان کی ذات میں داخل ہونا ازحد دشوار ہے۔ جو ان پڑھ ہیں ان میں ایسے بھی ہیں جو پڑھے لکھوں کو پیچھے چھوڑتے ہیں ۔پھر جو لوگ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں ان سے روزانہ ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کہ سامنے والا ان کو حیران ہو کر دیکھتا رہ جاتا ہے ۔ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈگری اور چیز ہے پھر تربیت اور شئے ہے ۔کبھی تو دونوں اکٹھی موجود بھی ہو تی ہیں۔پھر ایک انسان میں بھرپور طریقے سے پائی جائیں گی۔پھر کبھی تو دونوں نہیں ہوتی اور کبھی ایک کبھی دوسری موجود ہوتی ہے ۔میں نے کتنے دوستوں بھائیوں کو دیکھا ہے کہ محفل میں اگر بیٹھے ہیں اور ان کے موبائل پر رنگ آ جائے تو کمرے ہی میں جہاں بیٹھے ہوں وہیں لیٹے یا کھڑے ٹیلیفون ہاتھ میں اٹھا لیں گے اور اونچی آواز کے ساتھ بات چیت کرنا شروع کر دیں گے۔ باقی کے محفل میں موجود دوست خاموش ہو جائیں گے۔ مگر فون پر بات کرنے والے کو اپنی باتوں میں اس کااحساس نہیں ہوپاتا ۔ پھر وہ صاحب مسلسل لگے رہیں گے۔ ہنسی مخول ٹھٹھول اور قہقہے اڑیں گے بات طول اختیار کر جائے گی۔ مگر ان کو ذرا خیال نہیں آئے گا کہ میرے علاوہ مجلس میں اور بھی موجود ہیں ۔ جومیری وجہ سے ڈسٹرب ہیں۔اس طرح کی درجنوں خامیاں ہم میں موجود ہیں مگر ہمارا دھیان اس طرف جاتا ہی نہیں ۔کیونکہ ہمارا اپنا اپنا گریباں ہے مگر ہم نے اس کے اندر جھانکنا چھوڑ دیا ہے ۔ خود میری بھی تو یہی حالت تھی ۔لیکن مجھے احساس ہوا کہ سرِ بزم فون پر بات کرنے سے شریک محفل لوگ چپ ہو گئے اورانتظار میں ہیں کہ فون پر بات ہو لے تو یہ اپنی گپ شپ دوبارہ شروع کریں۔
جب اس احساس نے تھاما تو مجھے تھوڑی بہت سمجھ آ ہی گئی ۔موبائل فون کے ہزاروں فائدے ہیں اور کچھ نقصانات ہیں۔ پہلے ہزاروں نقصانات تھے اور کم کم فائدے تھے مگر اب زمانے کے ساتھ ساتھ صورتِ حال بدل چکی ہے ۔ایک نقصان یہ بھی کہ جس کامیں نے ذکر کیا اور ایک یہ بھی کہ مہمان ہی آجائے اور آتے ہی خود ہی سلام ودعا کے بعد جوں اپنی جیب سے موبائل نکالے تو اس پر میسج کرنا شروع کر دے ۔یہ ہر آدمی کے ساتھ نہیں ۔زیادہ تر تو اس خرابی سے واقف ہیں ۔ مگر بعض لوگ جو محفل کے آداب سے جانکاری نہیں رکھتے میں ان کا ذکر کر رہا ہوں۔ کیونکہ میںخود جب اس وبائے عام میں گرفتار تھا تو مجھے احساس نہیں ہو رہاتھا۔ مگر اب بہت افاقہ ہے ۔ مگر آدمی اس وقت نصیحت پکڑتا ہے جب وہ دوسر ے کو کوئی غلط کام کرتے دیکھتا ہے ۔جب میںنے دوسروں کی لگا تار اس قسم کی حرکات نوٹ کیں اور عجیب لگا تو میںنے سوچا کہ میں بھی ایسا کرتا ہوا کتنا برا لگتا ہوں گا۔ سو میں نے اپنے گریبان میں جھانکنا شروع کر دیا ۔اس حد تک کہ پھر مہمان ہو کہ خود گھر والا دونوں موبائل کی سکرین پر انگلیوں کو رقصاں کرنے پر جو کمر باندھ لیتے ہیں تو قسمت ہی سے موبائل ان کے ہاتھ سے نیچے میز پر رکھا جائے تو ٹھیک وگرنہ آج کل تو سب ایک ہی رسی کے بندھے ہیں ۔جو دوست آپس میں فری ہوں ان میں سے کوئی اعتراض کربھی دیتا ہے کہ آپ ہمارے ہاں اس لئے آئے ہیں کہ موبائل کے ساتھ کھیلیں ۔چھوڑیں اسے بات چیت کر تے ہیں۔ سب کچھ موبائل تو نہیں ہوتا ۔ انسان کی بھی تو کچھ حیثیت ہے ۔
سو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر موبائل ہاتھ سے میز پرٹکاکر سامنے والے سے نگاہیں چار کرناپڑتی ہیں ۔مگر جب تھوڑی دیر میں سامنے والے کا دھیان کسی اور طرف ہو تو موبائل کا شوقین دوبارہ موبائل اٹھا لیتا ہے۔ دراصل اس میں کسی کا قصور ہے بھی نہیں اور اگر جرم ہے تو پھر سب کا ہے۔ سب اس میںبرابر کے شریک ہیں۔ کیونکہ زمانے کی ہوا ہی ایسے رخ پر چل نکلی ہے کہ اب موبائل کے بغیر تو کسی ایک کابھی گزارا نہیں ۔سب کی اپنی اپنی مجبوری ہے ۔اگر کوئی موبائل استعمال نہیں کر رہا تو اس کے پاس شاید موبائل خریدنے کی طاقت نہ ہو ۔مگر یہ ایک خیال ہے ۔کیونکہ جسے دیکھو موبائل کی زلفوں کا اسیر ہو چکا ہے ۔پھر سچی بات تو یہ ہے کہ اس کے بغیر کسی کی زندگی آجکل گذر نہیں سکتی۔ بہت باتونی ہوں گے جو اس پر اعتراض کریں گے مگر خود اپنے کاروبار اور اپنے دفتری کھاتوں یا کسی اور مسئلے کے تحت مجبوری کے عالم اس شیطانی چرخے کو استعمال کرتے ہوئے پائے جائیںگے۔ کیونکہ لاکھوں کے سودے اس پر ہو رہے ۔ٹرکوں میں مال بھر کر لاکھوں روپے میں ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہاہے ۔موبائل پردکان کے لئے سامان منگوایا جاتا ہے ۔ سیمپل کی تصویر وٹس ایپ پر اپ لوڈ کر کے دوسرے شہر بھجوا دی جاتی ہے ۔ وہ پکچر وہاں ڈا¶ن لوڈ ہوتی ہے اور چند دنوں میں یہاں دکان کے آگے رات کے وقت ٹرک سے مال ان لوڈ ہو رہاہوتا ہے ۔