پاکستان کہ جسے ہر مشکل وقت میں اور ہر مرتبہ سعودی عرب سے مالی تعاون میسر آتا رہا ہے اپنی اقتصادی مشکلات کے باعث بیساکھیوں پر کھڑے پاکستان کے اقتصادی منظرنامے میں سرمایہ دار ممالک کے مقابلے سعودی عرب کو کلیدی اہمیت حاصل ہے جس نے نومبر 2018ءمیں معاہدے کے تحت تین ارب ڈالر نقد دیئے تھے تاہم کچھ ناراضگی ہوئی تو اِس میں سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لئے اور پاکستان نے فوری طور پر چین سے ایک ارب ڈالر قرض لے کر سعودی عرب کو اُس کے ایک ارب لوٹا دیئے‘ پاک سعودی تعلقات کی خرابی کے تانے بانے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک بیان سے جا ملتے ہیں جس کے بعد سے پاک سعودی عرب تعلقات پہلی بار تاریخ کی پست ترین سطح پر چلے گئے ہیں تاہم پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے جس کی خارجہ پالیسی کسی ملک کی خواہشات کے مطابق مرتب نہیں ہو سکتی اور خوش آئند ہے کہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے آزاد ہونے کا عملاً ثبوت دیا ہے اور ایک ایسی بات کی ہے جو سچ ہے‘ سوشل میڈیا پر پاکستان کی ”آزاد خارجہ پالیسی“ کے چرچے ہو رہے ہیں اور اندرون و بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کی اکثریت اِس بات کو سراہ رہی ہے کہ مالی مشکلات کا دور کسی نہ کسی صورت ختم ہو ہی جائے گا لیکن اگر پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کو اپنے نظریات اور اصولوں کے مطابق ڈھال لیا تو وہ صرف خطے ہی نہیں بلکہ پہلی اسلامی عالمی طاقت بن کر اُبھرے گا جس طرح وہ جوہری صلاحیت رکھنے والا پہلا اسلامی ملک ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔
لیکن ممالک کے درمیان تعلقات کو جذباتی انداز سے دیکھنا اور سمجھنا نہیں چاہئے بلکہ یہ ایک بنیادی غلطی ہے۔ اول تو پاکستان اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے تعلقات پہلی بار تناو¿ کا شکار نہیں ہوئے اور اس تناو¿ کو باقی دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور پیشرفت سے الگ رکھ کر نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ اگر ایسا کیا جائے گا تو یہ سیاق و سباق سے ہٹ کر نتیجہ ہوگا۔ جہاں تک پاکستان کی پہلی مرتبہ آزاد خارجہ پالیسی ظاہر کرنے کا تعلق ہے تو خارجہ ہو ںیا داخلہ حکمت عملیاں تو وقت کے ساتھ تشکیل پاتی ہیں اور اسی اعتبار سے تبدیل بھی ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی بھی حکومتوں کی تبدیلی مستقل ریاستی پالیسی پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ خود سعودی عرب کی خارجہ پالیسی حاصل مطالعہ ہے جس میں کئی اُتار چڑھاو¿ دیکھنے میں آئے ہیں اور پاکستان میںمختلف جماعتوں کی حکومتوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت مختلف رہی۔
کسی جماعت کے ساتھ اگر قریبی دوستانہ رہاتو دوسری کے ساتھ تعلقات سردمہری کا شکار رہے ۔ایک پارٹی کے دور حکومت میں اگر سرد مہری رہی تو دوسری جماعت حکومت آتے ہی حکمرانوں کے درمیان معاملات پرانی ڈگر پر آگئے اور سعودی عرب نے قرض دینے کی بجائے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ دے کر دلی مسرت کا اظہار کیا پاکستان کی حکمراں جماعتوں نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے قائدین کی وقتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان اِس حد تک مجبور ہے کہ وہ ایک قرض چکانے کےلئے دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلتا ہے ‘بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر نومبر دوہزاراٹھارہ سے اگست دوہزار بیس کے سفر میں ایسا کیا ہوا ہے کہ پہلی بار پاکستان کے وزیرِ خارجہ کو سعودی عرب کے خلاف سرِعام بولنا پڑا؟ اس حوالے سے ضرور جاننے کی ضرورت ہے،سعودی عرب برادر اسلامی ملک ہے جس نے پاکستان کا کئی مشکل مواقع میںساتھ بھی دیا ہے تاہم کشمیر کے مسئلے پر او آئی سی کی سستی اور نظر انداز کرنے کا وقت اب گزر چکاہے اور پاکستان یقینا حق بجانب بھی ہے ایسے میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پررکھنے اورعرب دنیا کو کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے حساس پوزیشن سے آگاہ کرنے کیلئے فعال سفارتکاری کی ضرورت ہے۔