بھارت کے زیرتسلط کشمیر کے بارے میں پاکستان اور ’مسلم دنیا‘ کا اجتماعی مو¿قف جب تک ایک نہیں ہو جاتا اُس وقت کشمیری مسلمانوں پر بھارت کی جانب سے جاری مظالم کا سلسلہ بھی نہیں رُکے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے کو جس قدر اُجاگر کرتا ہے‘ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق اُن کے لئے حق خودارادیت کی جس قدر حمایت کرتا ہے اُتنا ہی مسلم ممالک آپس میں اُلجھ جاتے ہیں تو جب تک مسلم دنیا کو قائل نہیں کر لیا جاتا یا مسلم دنیا کے مو¿قف سے قائل نہیں ہوا جاتا اُس وقت ہر عالمی کوشش رائیگاں رہے گی۔ تیسری اور حتمی بات یہ ہے کہ پاکستان کے یوم آزادی کو یوم کشمیر کے نام سے منسوب ہونا چاہئے کہ اِس دن کشمیر کی آزادی کے لئے جدوجہد کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے عزم کی تجدید ہونی چاہئے کیونکہ یہ معاملہ صرف پاکستان ہی سے نہیں بلکہ پورے خطے کی سلامتی اور امن سے بھی متعلق ہے۔براعظم ایشیا عالمی طاقتوں کے لئے تجربہ گاہ ہے۔ یہاں کے مسئلے مسائل کو امریکہ‘ چین اور روس الگ الگ زاوئیوں سے دیکھتے ہیں جبکہ پاکستان اپنے انتہائی دیرینہ اور دوست ملک سعودی عرب جیسے ملک کو قائل نہیں کر پا رہا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر کشیدگی کا عنصر اِس حد تک غالب ہو چکا ہے کہ اب سوشل میڈیا پر بیانات اور اِن بیانات کے لب و لہجے سے بھی اختلافات چھلکتے ہیں جو عموماً سفارتی اور حکمرانوں کی زبان نہیں ہوتی۔ درحقیقت پاکستان کو سعودی عرب میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں پر نظر رکھنا ہوگی ‘لہٰذا اس تبدیلی کے پیش نظر امریکہ مستقبل کے مطابق اپنی حکمت عملی طے کر رہا ہے۔
امریکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی حمایت کر رہا ہے مگر اس کے باوجود مستقبل میں عدم تحفظ کا احساس باقی ہے اور اس کی بنیادی وجہ اسرائیل کی مسلمان دشمن پالیسیاں ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان کے دیرینہ رشتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کو پاکستان کی نسبتاً زیادہ ضرورت ہے۔ ساٹھ کی دہائی سے پاکستانی فوج سعودی عرب کا دفاع کر رہی ہے اور یہ فوجی تعلقات اب بھی قائم ہیں۔ فرق صرف اتنا آیا کہ محمد بن سلمان اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے پاکستان کی بجائے مغرب کے زیادہ قریب ہو گئے ہیں لیکن اُنہوں نے ابھی پاکستانی افواج کو بے دخل نہیں کیا اور یہ وہ موقع ہے جہاں پاکستان کو اپنی اہمیت اور سعودی عرب کے دفاع میں خاموش کردار اَدا کرنے سے متعلق غیرمشروط تعاون بارے احساس دلانا چاہئے پاک سعودی تعلقات میں حالیہ کشیدگی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان سے شروع ہوئی جس میں اُنہوں نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کے خلاف اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی خاموشی پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اپنے ٹیلی ویژن انٹرویو شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ”میں ایک بار پھر او آئی سی سے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کی درخواست کر رہا ہوں۔ اگر اجلاس کا اِنعقاد نہیں کیا جاتا تو میں وزیراعظم عمران خان سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہوں گا کہ وہ ان اسلامی ممالک کا اجلاس خود طلب کریں‘ جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ ہیں اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کرتے ہیں۔“ جبکہ سعودی عرب بھارت کے آئین میں جموں کشمیر سے متعلق شقوق کے خاتمے کو بھارت کا داخلی معاملہ قرار دے چکا ہے۔
پانچ اگست 2019ءکے روز بھارت کے آئین کے آئین سے شق 370 کے خاتمے کے بعد او آئی سی رابطہ گروپ کے وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار ضرور کیا تھا اور یہ بھی کہا گیا کہ بھارت حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کے بارے میں کیا گیا آئینی فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ جب پاکستان نے ’او آئی سی‘ تنظیم پر تنقید کی جس پر سعودی عرب کا اثر و رسوخ زیادہ ہے تو اِس تنقیدی تبصرے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو 2018ءمیں دیئے گئے 3 ارب ڈالر سے زائد کے قرض میں سے ایک ارب ڈالر واپس کرنے کا تقاضا کیا اور پاکستان کو ادھار تیل دینا بھی پہلے ہی بند کیا جا چکا ہے۔ سعودی عرب کے رویہ میں تبدیلی عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے طور پر دیکھی جانی چاہئے کیونکہ ایشیائی ممالک کے مابین تعلقات کا توازن نئی شکل اختیار کر رہا ہے اور امریکہ و چین ایشیائی ممالک میں اپنا اپنا توازن قائم کر رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کشیدہ ضرور ہیں لیکن اسے دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کہنا یا سمجھنا نہیں چاہئے۔ وونوں ممالک نے ایک دوسرے کاہر مشکل میں ساتھ دیا ہے اور ایک دوسرے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں یہ الگ بات ہے کہ نئی دنیا میں ہر ملک اپنے مفادات کو اولین ترجیح دینے پر مجبور ہے۔چاہے وہ معاشی ضروریات ہوں یا دفاعی تقاضے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان او ر سعودی عرب کے درمیان اگر وقتی طور پر کچھ غلط فمہیاں موجود ہیں بھی تو انہیں باہمی سمجھ بوجھ کی روشنی میں سلجھایا جاسکتا ہے۔