ہر حسین چیز کے پیچھے تباہی اور زوال والا ایک انجام ہوتا ہے ۔اگر حسن دکھلانے سے پہلے آپ کو اس کا انجام دکھا دیں تو پھر اس واقعہ اس سین میں کیا دل کشی باقی رہے گی ان دنوں سوشل میڈیا پر جس طرح کے مناظر اپ لوڈ کئے جار ہے ہیں وہ ذہنی ہیجان میں مبتلا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ کہیں سرِ عام پھانسی کے مناظر ہیں کہیں کھیتوں میں خواتین و مرد دو اطراف جیسے عالمگیر جنگ میںمصروف ہیں جہاں لاٹھیوں کا آزادانہ استعمال جیسے جائز قرار دیا گیا ہے ۔کہیں قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں عدالت تک کیس کو جانے کے لئے چھوڑا ہی نہیں جاتا۔چلو یہی سب کچھ اگر ہم فلموں اور ٹی ڈراموں میں کہیں دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ یہ سب کیمرے کی چالاکیاں ہیں۔ کیونکہ وہی لنگڑا ہوجانے والا ہیرو اگلی فلم میں تندرست جوان بن کر پھر سے دوڑتا ہوا سامنے آ جاتا ہے۔دل کو تسلی ہوتی ہے کہ جوظلم میں دیکھ رہا ہوں وہ ہے تو سچ مگر اس فلم میں جھوٹ بناکر دکھایا گیا ہے ۔مگر سوشل میڈیا پر تو انسان کی کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہی ہے ۔انسان کو اذیت ناک طریقے سے مرتے ہوئے سچ مچ دکھلاتے ہیں تو حساس لوگ جیسے جینا ہی چھوڑ دیں ۔وہ احساس رکھنے والے گم سے ہوجاتے ہیں کھوسے جاتے ہیں او رڈھونڈو تو پائے نہیں جاتے۔ان میں سے ہر مووی کلپ نے بہت بربادی پھیلا دی ہے ۔
آدمی سے جینے کاحوصلہ چھین رہے ہیں۔کیا ان کو کسی طرح سے منع کیا جاسکتا ہے۔ بس ایک مارا ماری ہے اور سوشل میڈیا ہے ۔کوئی یہ کہے کہ بھلے اس قسم کے مناظر ہوں میں تو نہیںدیکھوں گا ۔ایسا نہیں ہو سکتا۔ لازمی طور پر انسان دو ایک سین سہی دیکھتاضرور ہے ۔ اس سوشل میڈیا نے سب کچھ اوپن کردیا ہے ۔ جو معاملات خفیہ ہوتے تھے اب ان کی سی سی فوٹیج کیمروںکی مدد سے نقاب کشائی کردی گئی ہے ۔ جو جرم کر رہا ہے وہ اگر اس کیمرے کی وجہ سے پکڑاجائے اس حد تک تو بہت اچھا ہے مگران کیمروں سے بعض نا پسندیدہ معاملے بھی پوری دنیا تک پہنچائے جا رہے ہیں۔زندگی کا حسن کچھ چھپانے کچھ دکھلانے میں ہے ۔سب کچھ دکھا دینے میں بھی نہیں اور سب کچھ چھپا لینے میں بھی یہ حسن پوشیدہ نہیں ہے ۔انھوں نے تو زندگی سے دل ہی اچاٹ کر دیا ہے ۔پہلے زندگی میں کچھ مزا ہوتا تھا مگر اب جو ں جوں سائنس ترقی کر رہی ہے اور نئے راستے کھل رہے جیون سے بیزاری کی کیفیت کچھ زیادہ ہو چلی ہے ۔ہم غریبوں کا پہلے ہی برا حال ہے ۔ہمارا روزگار تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ لوگوں کو لاک ڈا¶ن اور وائرس کورونا کی وجہ سے نوکریوں سے نکالا ہے اور جو بچ گئے ہیں ان کو تنخواہیں اول تو دی نہیں جا رہیں اور دی جاتی ہیں تو آدھی دیتے ہیں۔ ایسے میں موبائل پر اگر وہ موویاں دیکھیں جن کا تعلق جنرل نالج سے ہے تو الٹا معلومات زیادہ کیا ہوں گی زندگانی سے دل ہی کھٹا ہونے لگا ہے ۔
دل بیزاری کی کیفیت میں روز بروزاضافہ ہورہا ہے ۔باواجی جو نیوز چینل پر دکھاتے ہیں اور کچھ چھپا لیتے ہیں تاکہ کمزور دل حضرات نہ دیکھیں کوئی واقعہ جو دل آزاری کا ہو کسی کے ساتھ ظلم ہو رہاہو انسانیت کے جسم پر سوٹیاں ماری جا رہی ہوںآدھا دکھلائیں گے ۔مگر وہی ویڈیو پھرسوشل میڈیا پر پورے طور پر وائرل ہو جاتی ہے ۔میں تو کہتا ہوں یہ کوئی فخر کی بات نہیں گاڑی کو آگ لگی تو بجائے پاس کھڑے لوگ جل کر مر جانے والوں کو وہاں سے ریسکیو کر کے زندہ نکال لیتے وہ اپنے اپنے موبائل سے موویاں بنانے لگے اور گیس سلینڈر کے پھٹنے سے ہلاک ہو جانے والے اندر گاڑی ہی میں سرمہ بن گئے۔کچھ دکھانا او رکچھ چھپانا یہ اچھا ہے نہ کہ سب کچھ دکھا دینا اور کچھ بھی پیچھے نہ چھوڑنا۔ کچھ پردے میں ہی رہے تو اچھا ہے ۔انھوں نے تو زندگی سے دل ہی برا کر دیا ہے ۔ ہر ظلم کے واقعہ پر یہ لوگ سوشل میڈیا پرسب سے پہلے اپنی مووی اپ لوڈ کرنے کاکریڈٹ لیتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ یہ کھلم کھلا تشدد دکھانا بہت سے لوگوں کے لئے زندگی سے بیزاری کا سبب بنے گا۔ہمارا معاشرہ پہلے ہی بھوکا مر رہاہے ۔ یہی غم کیا کافی نہیں ہے ۔” یہ نہ ہوتا تو کوئی دوسرا غم ہونا تھا۔ میں تووہ ہوں جسے ہر حال میں بس رونا تھا۔“ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو سکون کی بجائے بے چینی دی ہے اور جو چیزیں لوگ آپس میں شیئر کرتے ہیں ان میں زیادہ تر ایسی ویڈیوز ہوتی ہیں جہاں تشدد اور حادثات دکھانا ہی دوسروں کو متاثر کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔