مجھے آن لائن کلاسوںکی مخالفت سے سروکار نہیں ۔مگر کلاس روم میں کلاس ہو اس کا تو کوئی جواب ہی نہیں ۔چونکہ چھ ماہ کا یہ دور بہت کڑا تھا جب ایک وبا ءنے نہ صرف ہمیں بلکہ پوری دنیا کو اپنی گرفت میں مضبوطی سے جکڑ ا تھا۔سو اس دوران میں تعلیم کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے غنیمت ہے کہ آن لائن کلاسیں منعقد ہوں ۔ جلد ہی وباءہمارے سر پر سے لٹکی ہوئی تلوار کی طرح دور جا گرے گی پھر ہم سر اٹھانے کے قابل ہو جائیںگے۔ ستمبر میں تعلیم کے اداروں کے دروازوں کو لگے موٹے تالے کھل جائیں گے اور پھر سے پڑھائی کا آغاز ہوگا۔ مگر بیماری کے اس چھ مہینے کے کٹھن وقت نے ہمیں بہت کچھ سکھا یا ۔ اب دنیا بھر میں کوئی بھی انسان ہو اگلے سو سال کے ل©ئے انتہائی محتاط ہو گا ۔پھر اپنی منصوبہ بندی میں لازمی طور پر تبدیلیاں کر کے زندگی کے میدان میں آگے بڑھے گا۔آن لائن کلاس تو ایک مجبوری کا نام ہے ۔پھر سے ایک دنیا آباد ہوگی ایک نئی دنیا اور نئی سی دنیا تخلیق ہوگی۔ جو سکول ‘کالج ‘یونیورسٹی کے لئے خواہ ٹیچر ہیں یا سٹوڈنٹ ترس گئے ہیں وہ اب کے دل جمعی سے پڑھنے پڑھانے میں دلچسپی لیں گے۔کیونکہ ہم نے اس وقفہ میں بہت کچھ گم کر دیا ہے۔ جس کو اب دوبارہ سے حاصل کرنا ہے ۔آن لائن کلاس ایک تو وٹس ایپ پر انعقاد پذیر ہوتی رہی مگر ضرورت ایجاد کی ماںہے ۔ وٹس ایپ میں مسئلہ ہوا تو گوگل کلاس روم کی ایپ متعارف ہوئی پھر اس میں پیچیدگی اور مشکلات پیش آئیں تو گوگل مِیٹ نام سے ایک اور ویب انسٹال کرنا پڑی ۔ٹیچر اپنا لیکچر ریکارڈ کر لیتا مگر وٹس ایپ پر کسی سٹوڈنٹ کا چہرہ دکھائی نہ دیتا ۔ پھر یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ کیا وہ اس وقت اپنا لیکچر توجہ سے سن رہا ہے ۔ پھر گوگل کلاس روم میں بھی ریکارڈنگ کا معاملہ درپیش ہوا ۔ جس کا جب جی چاہا اس نے استاد کا لیکچر سنا ۔ اگر بچی ہے تو اس نے جھاڑو پوچا کر کے برتن دھو کر اور اگر وہ بچی ماں بھی ہے تو بچوں کو سنبھال کر بی ایس کے آخری سمسٹر کا لیکچر سارے کام کاج ختم کر کے آرام سے سن لیا۔
پھر گوگل میٹ میں تو براہِ راست معاملہ ہے ۔شاگردوں کے چہرے بھی نظر آتے ہیں اور ٹیچر کا فرمانا ہوتا ہے کہ ذرا اپنے ارد گرد موبائل گھما کر دکھا¶ کہ کمرے میں اور کون ہے ۔اس وقت کوئی تمھاری مدد کے لئے تو نہیں بیٹھا ہوا۔مگر اس کے باوجود کہ آن لائن ایک سہولت کا نام ہے اس میں مسائل بہت ہیں ۔ایک بڑابیلنس ایزی لوڈ کر نا پڑتا ہے ۔جو اگر ختم ہو جائے تو سٹوڈنٹ لیکچر سننے سے محروم رہ جائے گا۔ پھر اگر پہاڑی مقامات ہیں تو وہاں سگنلز کا مسئلہ نکل آیا کہ بوسٹر کے ذریعے آواز اور تصویر کی لہریں سفر نہیں کر پا رہیںکیونکہ جب یونیورسٹیاں کالج بند ہوئے تو سٹوڈنٹس اپنے علاقوں کو چلے گئے ۔پھر بچیوں کو بعض گھرانوں میں عام شام موبائل تک بھی استعمال کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ پھر آن لائن کلاس کی وجہ سے انھیں اب غریب گھرانوں کے شرکاءہو کر ٹچ او رمہنگے والا موبائل لینا پڑا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کلاس روم کی پڑھائی کا اور کوئی طریقہ اس کا متبادل نہیں ۔آن لائن کلاس جیسی بھی ہو جس طرز کی ہو وہ لطف نہیں دے سکتی جو کلاس روم کے اندر ٹیچر کے چہرے کو دیکھ کر سیکھنے میں ہے ۔کیونکہ اگر آپ پوری کتاب پڑھ لیں اور سمجھ نہ آئے تو و ہ کتاب آن لائن کلاس میں بھی آواز کے ذریعے سمجھ سے بالاتر ہوگی لیکن اس مسئلے پر اگر کلاس روم میں ٹیچر نے کسی بات پر ذرا سا کاندھے بھی اچکائے ذرا آنکھوں کو اوپر نیچے کیا تھوڑا ہاتھ ہلایا یا بھنوﺅں کو اوپر تلے کیا تو بات اچانک سمجھ میں آ جاتی ہے۔
ٹیچر کاوجود کمپیوٹر کے ہوتے اور موبائل پر ہر قسم کی معلومات دستیاب ہونے کے باوجودازحد ضروری ہے ۔ کلاس روم کی ہزاروں سال کی روایت جو ہمارے خون میں شامل ہے جلد بحال ہوگی۔آن لائن کلاس میں ٹیچر سے متاثر ہو کر پڑھائی میں دلچسپی لینے کا عمل رک جاتا ہے ۔کلاس روم کا روایتی طریقہ ہی ٹھیک ہے۔کلاس روم میں ہر سٹوڈنٹس پر ٹیچر کی نگاہ ہوتی ہے ۔کسی کوچپ کروانا کسی سے سوال کرنا کہ کیا آپ کو سمجھ میں آیا ۔ اگر دن میں تین کلاسیں ہیں تو ایک بچوں کی ماں اگر کالج پہنچی وہاں ٹیچر چھٹی پر تھی یا کلاس میں دیر سے آئی تب بھی وہاں تعلیم کا ماحول ہوتا ہے اور بندہ اس ماحول میں اور ایک دوسرے سے بھی بہت کچھ سیکھ لیتا ہے ۔آن لائن میں ٹیچر کا خیال ہو گا کہ سب مجھے سن رہے ہیں مگر ہو سکتا ہے کہ سٹوڈنٹس میں سے ایک کے کان بھی ٹیچر کے لیکچر پر نہ ہوں ۔ مہینے بھر کے بعد پورے ملک میں کلاس روم آباد ہو جائیں گے ۔ہر چند ا س میں کچھ نقصانات ہو چکے ہوں گے مگر ان پر دھیان نہیں دینا بلکہ آگے دیکھنا ہے ۔جو ہوا سو ہوا اس کو ہونے سے کوئی روک نہ سکتا تھا ۔اب آگے کی خدا خیر کرے ۔ ایک وائرس جاتا ہے تو دوسری وباءانسانی آبادی کی تا ک میں ہوتی ہے ۔