مشرق وسطیٰ کا سیاسی منظرنامہ عرصے سے تغیرپذیر ہے تاہم اِس میں اِسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہوئے معاہدے کے سبب نئی موجیں اُٹھ رہی ہیں اور اگر اِس ”ناقابل یقین اور تاریخی پیشرفت“ قرار دیئے جانے والے معاہدے‘ جس سے دوسرے فریق یعنی مسلمان ممالک کا نسبتاً کم فائدہ نمایاں ہے اور خلیجی ممالک کی دیرینہ خارجہ حکمت عملی میں تبدیلی سے اسرائیل کے ہمسایہ خلیجی ممالک کی معیشت و دفاع بظاہر محفوظ لیکن درحقیقت پہلے سے زیادہ داو¿ پر لگ چکے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اور ابوظہبی (متحدہ عرب امارات) کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید نے تیرہ جولائی کے روز مشترکہ بیان میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ”اسرائیل کے ساتھ معاہدے سے تاریخی پیش رفت ہوئی ہے اور اِس سے مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں مدد دے گی!“ مذکورہ بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ ”اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو معطل کر دے گا۔“ لیکن اگر ایسا ہوا بھی تو یہ وقتی اقدام ہی ہوگا اور اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے جیسی خام خیالی اور حقیقت جلد ہی خلیجی ممالک کے حکمرانوں پر عیاں ہو جائے گی جنہیں صرف اور صرف وقتی فائدہ اور اپنی بادشاہت کے عرصے کو طول دینے کی فکر لاحق ہے۔
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے میں اتفاق ہوا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں دونوں ممالک کے وفود آپس میں ملاقات کر کے سرمایہ کاری‘ سیاحت‘ براہِ راست پروازوں‘سلامتی‘ مواصلات‘ ٹیکنالوجی‘ توانائی‘ صحت‘ ثقافت‘ماحولیات‘ سفارت خانوں کے قیام اور باہمی فائدے جیسے دیگر معاملات پر دو طرفہ معاہدے کریں گے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”مشرقِ وسطیٰ کے 2 متحرک معاشروں اور جدید معیشتوں کے درمیان براہِ راست تعلقات کے قائم ہونے سے معاشی ترقی ہو گی۔ ٹیکنالوجی میں نت نئی ایجادات ہوں گی اور عوام کے آپس میں تعلقات بہتر ہوں گے جس سے خطہ بدل جائے گا۔“ اس کے علاوہ اسرائیل صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مجوزہ امن منصوبے میں متعین کردہ علاقوں پر اپنی خود مختاری کا دعویٰ کرنا بھی روک دے گا۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے ویژن فار پیس منصوبے میں اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودی بستیوں کے قیام اور ایک اہم وادی جو کہ اردن کا علاقہ ہے اُسے اسرائیل میں ضم کرنے کے اسرائیلی منصوبے کی حمایت کر چکے ہیں۔ دوسری طرف فلسطینیوں نے خبردار کیا ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام اُن کی آزاد ریاست کی امیدیں ختم کر دے گا اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہوگا۔ حالیہ پیشرفت کے کئی پہلو ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ انور قرقاش کا یہ بیان لائق توجہ ہے جس میں اُنہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا ’بہت جرا¿ت مندانہ اَقدام‘ ہے تاکہ اِسرائیل کی جانب سے غرب اُردن کے اِنضمام کے ’ٹائم بم‘ کو روکا جا سکے۔ مشترکہ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ’اب دیگر عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات وسیع کرنے پر غور کرے گا اور متحدہ عرب امارات اور امریکہ اس مقصد کے حصول کے لئے کام کریں گے۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل ’مشرقِ وسطیٰ کے لئے اسٹریٹجک ایجنڈا‘ لانچ کرنے کے لئے بھی امریکہ کے ساتھ کام کریں گے۔ تینوں رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ وہ ’خطے میں خطرات اور مواقع کے بارے میں مشترکہ نظریہ رکھتے ہیں اور سفارتی تعلقات‘ زیادہ معاشی تعاون اور قریبی دفاعی تعلقات کے ذریعے استحکام کو فروغ دینے کا بھی مشترکہ عزم رکھتے ہیں۔‘ فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے کہا کہ ”مذکورہ معاہدہ ’غداری‘ ہے جبکہ متحدہ عرب امارات فلسطین سے اپنا سفیر بھی واپس بلوا رہا ہے۔“ مکمل سفارتی تعلقات اور سفارتخانوں کا قیام اور اسرائیل و متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارتی تعلقات کا معمول پر آنا ایک اہم سفارتی قدم ہے مگر اس سے لامحالہ سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا اس معاہدے میں کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد ہو سکے گا؟ اور کیا دیگر خلیجی ممالک بھی ایسا ہی راستہ اپنائیں گے؟یہ نظر میں رکھنا بھی اہم ہے کہ اس معاہدے میں کیا شامل نہیں ہے۔ نیتن یاہو کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ یہ ’امن اقدام‘ ان کے لئے اسرائیلی عام انتخابات میں کامیابی کے امکانات بڑھا سکتا ہے۔