مساجدحرمت وتقدس 

 مغل بادشاہ شاہ جہان کے دور میں 1634ءسے 1641 سن عیسوی کے درمیان تعمیر ہونے والی ’مسجد وزیر خان‘ اقوام متحدہ کی اُس فہرست کا بھی حصہ ہے جس میں دنیا کے اہم ترین آثار قدیمہ کا شمار کیا جاتا ہے اور مغل عہد کی اِس شاہکار‘ خوبصورت ترین اور مزین در و دیوار والی مسجد کی اپنی الگ شان و شوکت ہے جہاں رواں ہفتے ایک گانے کی فلمبندی کرنے پر اداکارہ صبا قمر اور گلوکار بلال سعید کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ”قبول ہے“ نامی گانے کے گلوکار بلال سعید اور اداکارہ و ہدایت کار صبا قمر کا پہلا مو¿قف تھا کہ اُنہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ بعدازاں حکومت اور سوشل میڈیاکے ذریعے عوامی دباو¿ پر انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کی اور جلدی سے معافی بھی مانگ لی جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے فلم بندی کے وقت موجود مسجد انتظامیہ کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی بلکہ دفتری اجازت دینے والے اہلکار کی ملازمت (وقتی طور پر) معطل کی گئی! اور مذکورہ گانا بھی ’12 اگست‘ کے روز جاری (ریلیز) کر دیا گیا

 

جس میں وزیرخان مسجد کے اندر فلمائے گئے مناظر شامل نہیں ہیں۔ اداکاروں کے بقول کسی کی تکلیف‘ ناراضگی یا کسی مقدس مقام کی بے حرمتی اُن کا مقصد نہیں تھا لیکن بنیادی سوال ہے کہ آخر ایسی کیا مالی مجبوری اور ہنگامی ضرورت لاحق و درپیش تھی کہ پاکستان کے آبادی اور آمدنی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کی ایک مسجد میں 30 ہزار روپے کے عوض فلم بندی کی اجازت دی گئی اور کیا ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے؟ سوشل میڈیا کے زمانے میں خبر روایتی ذرائع ابلاغ کی محتاج نہیں رہی بلکہ یہ شائع اور بیان ہونے سے پہلے سماجی رابطوں کے وسائل کے ذریعے نشر ہو جاتی ہے۔ اصلاً مساجد میں کسی بھی قسم کی عکس بندی قطعی طور پر غیر قانونی ہے اور اس کی بالکل بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ مختلف صوبوں میں محکمہ¿ اوقاف کو حاصل اختیارات پر نظرثانی کا وقت ہے کہ وہ ایسی کوئی بھی اجازت نہیں دے سکتے۔ جو لوگ مسجد میں مذکورہ فلم بندی کی حمایت کرتے ہوئے گلوکار اور ہدایت کار و اداکارہ کی حمایت کر رہے ہیں اُن کے دلائل انتہائی کمزور ہیں

 

اِسلام نے انسان و انسانیت کو وقار اور بلندی سے نوازا ہے۔۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ غلطی اور گستاخی پر غور ہونا چاہئے۔ غلطی کس سے سرزد ہوئی اور گستاخی کا مرتکب کون ہوا ہے یہ مسجد میں فلم بندی کے الگ الگ پہلو ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اہل مغرب ہر اسلامی طریقے کی وقعت کم کرنے کے درپے ہیں۔ تاہم شعائر اسلام کا جو تقدس ہے اس کو برقرار رکھنا ہر کسی پر لازم ہے ۔الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے تمام پاکستانی ٹیلی ویژن چینلز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی معمول کی نشریات روک کر پانچ وقت کی آذان نشر کریں گے۔مقصد آذان کا نہیں بلکہ آذان کے اوقات کا احترام متعارف کروانا تھا تاہم اس کی پابندی مکمل طور پر نظر نہیں آرہی۔ایسے حالا ت کہ جب دشمن کی طرف سے پاکستان میں سازشوں اور حالات خراب کرنے کیلئے منصوبے چل رہے ہیں ، اس طرح کے واقعات کا سد باب کرنا ازحد ضروری ہے ، مساجد کا جو مقصد ہے اس کو اسلئے ہی استعمال میں لانے کی ہدایت ہے جس کی پابندی لازمی ہے۔