حکومت نے متبادل اور قابل تجدید توانائی پالیسی 2020ءکا باضابطہ طور پر اعلان کردیاہے‘ اس پالیسی کا اعلان گزشتہ روز وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر برائے توانائی عمر ایوب خان نے کیاہے۔واضح رہے کہ اس نئی پالیسی کے تحت سرمایہ کاروں کو ٹیکس کی کئی سہولیات دی گئی ہےں جس سے اگر ایک طرف اس شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاروں کو راغب کیاجاسکے گا وہاں اس سے عام صارفین کو سستی بجلی ملنے کی امید بھی پیدا ہوگئی ہے ۔ مشترکہ مفادات کونسل کے حالیہ اجلاس میں منظور شدہ اس پالیسی کے مطابق بجلی کی ترسیل میںمتبادل ذرائع کاموجودہ حصہ جو کہ صرف پانچ فیصد ہے کو2025 ءتک 20 فیصد جب کہ 2030 ءتک 30فیصدتک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس نئی پالیسی کے تحت پن بجلی کوبھی جلد ہی توانائی کے متبادل ذرائع کے زمرے میں شامل کرلیا جائےگا جس کے تحت اس کا حصہ 2030ءتک بجلی کی پیداوار میں 60 فیصدہوجائے گا اس طرح تھر کوئلہ پراجیکٹ اور جوہری توانائی سے بننے والی بجلی کے ساتھ مل کر مقامی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی مجموعی شرح75 فیصدتک پہنچ جائے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس نئی توانائی پالیسی سے شمسی اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی کے نرخوں کو چارسینٹ سے کم فی یونٹ پر لایا جائے گا جس کافائدہ شمسی پینل، ونڈ ٹربائنوں اور اس سے متعلق سازو سامان کی مقامی سطح پر تیاری کی صورت میںسامنے آئے گا جس سے مقامی صنعتوں میں سرمایہ کاری اور روزگارکی نئی راہیں کھلیں گی۔توانائی کی اس نئی پالیسی میں پانچ اہم خصوصیات ہیں جو ماضی کی پالیسیوں سے مختلف ہیں۔
او ل بجلی کی سابق پالیسیوں کے برعکس نئی پالیسی میں کم لاگت کی مسابقتی بولی پرسرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی آفرکی جائے گی۔دوم وفاقی حکومت اضافی بجلی کی ضرورت کی مقدار کے بارے میں سالانہ اور تین سالہ بنیاد وںپر پہلے کی طرح فیصلہ کرے گی لیکن یہ فیصلہ چاروں صوبوں، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے نمائندوں پر مشتمل ایک سٹیئرنگ کمیٹی کے ذریعے مشترکہ طور پر کیا جائے گا۔اس اقدام کے تحت یہ فیصلہ بھی کیاجائے گاکہ شمسی، ہوااورفضلے سے حاصل ہونے والی متبادل توانائی کا کتنا حصہ مختص کیا جائے ۔سوم سرمایہ کاری کی بولیوں میں کرنسی کی قدر میں کمی کے عنصر کا خیال رکھا جائے گا کیونکہ ماضی میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ڈالر کی قدر میں ہونے والا غیر متوقع اضافہ تھا جس کا اثرعام صارفین پر بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی صورت میں پڑ رہا تھا۔چہارم اس پالیسی میں سولر پینلز، ونڈ ٹربائنزاور دگر متعلقہ سازو سامان کی تیاری کے لئے ٹیکنالوجی کی منتقلی کابھی خاص خیال رکھا گیا ہے جس سے نہ صرف متبادل ذرائع میں استعمال ہونے والے آلات سستے داموں مقامی سطح پر تیار ہونے میں مدد ملے گی بلکہ اس سے مقامی سطح پر روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں تین اعلیٰ چینی کمپنیوں اور ایک معروف یورپی صنعت کار نے شمسی اور ہوا کے سازوسامان کے لئے مینوفیکچرنگ یونٹ کے قیام کے لئے حکومت سے رجوع کیا ہے۔
اس پالیسی میںپانچویں بات یہ ہے کہ بولی دو سے تین سال کی توانائی کی ضروریات پر مبنی ہوگی ۔ اس نئی پالیسی کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ سامان، مشینری اور مینوفیکچرنگ میٹریل کی درآمد کو کسٹم ڈیوٹی یا امپورٹ ڈیوٹی سے استثنیٰ حاصل ہوگا اور اس شعبے میں ہونے والی سرمایہ کاری کو انکم ٹیکس سے بھی مستثنیٰ کیا جائے گا اور صرف منافع پر ودہولڈنگ ٹیکس لاگو ہوگا لہٰذامید ہے کہ اس فیصلے سے بجلی کی قیمت فی یونٹ 3.5 سینٹ سے کم ہوجائے گی۔اس نئی پالیسی کے تناظر میںیہ بات خوش آئند ہے کہ چینی کمپنیاں امریکہ چین تجارتی جنگ کی وجہ سے اپنے کارخانوں کو پاکستان منتقل کرنے میں دلچسپی لے رہی ہیں اور مینوفیکچرنگ گروتھ کی شکل میں اس کا فائدہ پاکستان کوہوگا۔ نئی متبادل پالیسی کے تحت سرمایہ کاروں کو ٹیکسوں کی مد میں مکمل چھوٹ دی گئی ہے جس سے غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں بڑے پیمانے پر راغب ہونے میں مدد ملے گی۔توقع ہے کہ ایک سال کے اندر اندرپاکستان نہ صرف مقامی سطح پر قابل تجدید متبادل توانائی کے ضروری سازوسامان کی تیاری میں خود کفیل ہوجائے گا بلکہ اس پالیسی کے نفاذ سے توانائی کی حفاظت، بجلی کی سستی اور سب کے لئے دستیابی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تحفظ کا گھمبیر مسئلہ حل ہونے میں بھی مدد ملے گی۔