متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان دوطرفہ سفارتی تعلقات‘ تجارت‘ سیاحت‘ سرمایہ کاری اور دفاع جیسے شعبوں میں تعاون پر مبنی معاہدہ جمہوری اسلامی ایران کی قیادت کے لئے ناقابل یقین پیشرفت اور حقیقتاً کسی صدمے سے کم نہیں جبکہ ایران سے آمدہ اطلاعات کے مطابق ایرانی عوام نے بھی اِس کے خلاف ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے‘ ذہن نشین رہے کہ تیرہ اگست کے روز امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین معاہدے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوں گے جبکہ بنیادی مقصد و ہدف یہی ہے کہ خطے میں ایران کے خلاف قوتوں کو مضبوط بنایا جائے۔ صدر روحانی نے اپنی تقریر میں کئی باتیں زور دے کر کہیں اور دنیاکو خطرات سے خبردار کیا کہ ”مشرق وسطیٰٰ میں اسرائیل کے پاو¿ں مضبوط کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔“ ایسا ہی ایک بیان ترکی کے صدر طیب اردگان کی جانب سے بھی سامنے آیاہے جنہوں نے کہا ہے کہ ”تاریخ متحدہ عرب امارات کے طرز عمل کو کبھی فراموش نہیں کر پائے گی۔“ کئی مسلم ممالک کے ردعمل کو ایک جملے میں سمونے کی کوشش کی جائے تو وہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہوئے اتفاق رائے کو ’امن معاہدہ‘ نہیں کہنا چاہئے ‘ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے میں اسرائیل کی جانب سے یہ بات صاف تحریر ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور اپنی آبادیاں بڑھانے کے سلسلے کومعطل کر رہا ہے ‘ ایران نے مسلم دنیا کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے عرب امارات کی قیادت کو ہوشیار رہنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ اُن کی اِس حرکت کو ”غدار قدم“ قرار دیا ہے جو انتہائی سخت الفاظ اور غیرسفارتی الفاظ ہیں لیکن ایران ایسا ہی ہے کہ وہ اپنے انقلاب کے اصل مقصد کو اپنی سرحدوں کے اندر نہیں بلکہ عالمی تناظر میںدیکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایران کی جانب سے اِس اُمید کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ عرب امارات کو جلد اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور وہ اس غلط راستے کو جلد چھوڑ دیں گے ۔
حالانکہ ایسی کوئی ایک مثال بھی موجود نہیں کہ جہاں اسرائیل نے کسی دور دراز کے مسلم ملک سے معاہدہ کیا ہو اور وہ معاہدہ مسلم ملک کی طرف سے توڑ دیا گیا ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ سرمایہ کاری‘ معاشی مفادات اور دفاع کی مضبوطی کا جھانسہ دے کر اپنے پنجے اِس طرح گاڑھ لیتے ہیں کہ اُس کے بعد اتحادی ملک کی فیصلہ سازی بھی اِنہی کے مفادات کے تابع ہو جاتی ہے۔ صدر روحانی نے درست کہا ہے کہ امارات اسرائیل معاہدے کا مقصد نومبر میں ہونے والے امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کی نامزدگی مستحکم کرنا ہے اور اسی وجہ سے اس معاہدے کا اعلان بھی واشنگٹن سے کیا گیا ہے۔
اب یہ معاہدہ کیوں ہوا ہے؟ اگر یہ معاہدہ غلط نہیں ہے تو پھر کسی تیسرے ملک میں اس کا اعلان کیوں کیا گیا ہے؟ وہ بھی امریکہ میں؟ یہ بات وہ سبھی لوگ باآسانی سمجھ سکتے ہیں جنہیں امریکہ کی داخلی و انتخابی سیاست کی سمجھ بوجھ ہے کہ وہاں کے سیاست دانوں کا طریقہ¿ واردات ہی یہی ہے کہ وہ انتخابات سے قبل اسرائیل کے تحفظ سے متعلق اقدامات کرتے ہیں‘ابتدائی ردعمل میں امارات نے کہا کہ ”اسرائیل کے ساتھ اُس کے معاہدے کا مقصد ایران کو جواب دینا نہیں ہے۔“ امارات نے ترکی کی جانب سے بھی معاہدے پر تنقید کو مسترد کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران اُور خلیجی ممالک کے تعلقات امارات اسرائیل معاہدے سے قبل بھی پیچیدہ تھے‘ جو مزید اُلجھ گئے ہیں اُور وہ تناو¿ جو پہلے بات چیت یا ثالثی کے ذریعے حل ہونا ممکن تھا اب اُنہیں حل کرنا آسان نہیں ہوگا اور دونوں ممالک میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ امارات اسرائیل معاہدے کی واحد کامیابی یہی دکھائی دیتی ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے کے علاقے پر قبضہ کرنے کا اپنا وہ منصوبہ مو¿خر کردیا ہے۔
جس کی امریکہ حمایت کر چکا ہے۔ نتیجہ جو بھی ہو لیکن بقول اردگان ”تاریخ کا ضمیر اور خطے کے لوگ اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر امارات کے طرز عمل کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔“ عجیب صورتحال ہے کہ عرب دنیا کی سوچ بدل رہی ہے اور وہ اپنے ہمسائے میں توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے اسرائیل کو خطرہ نہیں سمجھ رہے جبکہ یہی وہ سب سے بڑا خطرہ ہے‘ جو اِن سبھی ممالک کی سلامتی‘آزادی اور وسائل کو شکار کر سکتا ہے۔ امارات سے قبل مصر اور اردن نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے تھے۔ یوں امارات ایسا تیسرا عرب ملک بن گیا ہے۔