بچے توبچے ہوتے ہیں

 بچوں کو کیا پتا کہ بیروزگاری کسے کہتے ہیں ۔ وہ تو ان باتوں سے واقف ہی نہیں ہوتے ۔ ظاہر ہے کہ ان کی عمر ہی ایسی ہوتی ہے ۔ وہ تو ہر چیز مانگتے ہیں چاہے جہاں سے بھی لا کر انھیں دو۔ اگر یہ بچہ لوگ روزانہ باہر جاکر چکر لگا کر آنے کی عادی ہیں تو روز باہر جانے کی ضد کریں گے۔ خواہ ایک دن میں ایک بار ہو یا دس باری ۔ پھران سے کہیں کہ بیٹا باہر سخت گرمی ہے دھوپ ہے تو وہ اس بات کو نہیں مانیں گے۔یہ چیز ان کی کتاب میں نہیں ہے ۔ بلکہ سخت سردی ہو اور موٹر بائیک کی ٹینکی پر بیٹھناہواور انھیںکہیں کہ میری بچی کہیں نمونیا ہو جائے باہر ٹھنڈ ہے نہیں جاتے۔ مگروہ روئیں گے ضد پہ ضد کریں گے آخر کار مجبور ہو کے انھیں باہر لے کرجانا پڑے گا۔ جن شہریوں کے پاس گاڑیاں ہیں وہ تو چلو ان کو ٹھنڈی ہوا سے بچا لیں گے اور سخت کڑکتی دھوپ کے ستم سے ان کو محفوظ رکھ لیں گے ۔مگر جو لوگ درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو اپنے بائیک پر ہی جاسکتے ہیں۔سو انھیں اس سلسلے میں بے حد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پھر بچے ہیں اپنی ضد پوری کرکے رہتے ہیں۔ دوسرا بندہ روتے ہوئے بچے کو دیکھے تو باپ یا ماں سے کہے یار لگا¶ دو چار اس کو اور گھر سے باہر نہ نکالو مگر ماں باپ ایسا نہیں کرتے وہ اپنی محبت میں کسی نہ کسی بہانے انھیں باہر کی ہوا کھلا کر لائیں گے۔ مگر اس کے لئے جیب میں رقم ہونا بھی ضروری ہے بچوں کے ذہن کے کسی دور کونے میں بھی یہ نہیں ہوتا کہ ہم امی ابو کے ساتھ باہر جائیں گے تو خالی خولی گھر کو لوٹیں گے۔

 بلکہ باہر جانے کامطلب ان کے پاس یہی ہوتا کہ کھائیں پئیں گے۔ اگر باپ کی جیب پہلے سے ہلکی ہوتو بچوں کو اس سے کیا سروکار وہ تو پہلے سے جوتے پہن کر توتلی زبان میں گھر سے باہر کھلنے والے دروازے کی طرف اشارہ کر کے رونے لگتے ہیں اور پاپا دل میں شرمندگی محسوس کرتا ہے ۔ گھر میں دادا نے اگر یہ منظر دیکھ لیاتو سختی سے آواز دے گا کہ یار بٹھا¶ ان کو گھر میں ۔ روز کا آنا جانا ہے ۔تمہارااور کوئی کام نہیں ہے ۔تم دونوں میاں بیوی نے ان کو بگاڑا ہے ۔ خود بھی خوارہو اور ان کو بھی اپنے جیسا بنا دیا ہے ۔دادی معاملہ کی نزاکت کو بھانپ جائے گی۔وہاں کمرے سے آواز دے گی اِدھر آ بیٹا مجھ سے پیسے لے جا۔ ان کو چکر دلا اور کچھ کھلا پلا دے ۔جبکہ داداکو اس نازک کیفیت کی اندرونی کہانی پتا نہیں ہوتی۔ بچے گھر میں آئیںگے تو کسی کے ہاتھ کُرکُرے کاپیکٹ ہوگا کسی نے کھلونا اٹھا رکھا ہوگا۔ گا¶ں میں جہاں شہری زندگی کو نقصان کا اندیشہ ہے وہاںگا¶ں میں یہ فائدہ ہے کہ بچے خواہ ڈیڑھ سال کے کیوں نہ ہوں اور گھسیٹی کرتے ہوں مگر گلی میں بیٹھے رہیں گے ۔

گلی کے اور گھروں کے دروازے کھلے ہوںگے اورو ہاںسے بھی ہر عمر کے بچے باہر نکل کر گلی میں کھیلتے ہوئے بڑے ہو جائیںگے۔ مگر شہر کے بچے نازک اور پھر ان کے پپا اور مما کے دل بھی نازک۔ شہر کے بچے بنٹیاں کھائیں گے جوس پئیں گے پھر بھی گھر کو واپس لوٹنے پر راضی ہوںگے۔ ٹاپاپس تو ان کے ہاتھ سے گھر میں چھوٹے چچا بھی کھا لیں گے اور بچیاں جو پوپھیاں ہیںان کی ٹافیاں چھپ کر لے لیں گی۔ بلکہ خود بچوں کی چچی بھی پیار سے کہہ دےں گی مجھے دو نا۔ بعض بچوں میں یہ بات نہیں ہوتی لیکن بعض بچے اس عمر سے سخی ہوتے ہیں اوراپنے ہاتھ کی ببل گم دے دیں گے مگر کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے آپ پیار و محبت کا جادو چلا کر یہ چیزیں نہیں اچک سکتے ۔وہ سارے کمرے میں جیلی بسکٹ او رآئس کریم کھڑے کھڑے کھاجائیں گے مگر مجال ہے کہ کسی کو اپنے من بھاتا کھاجے میں شرکت کی دعوت دیں۔ وہ تو کہیں جب عمر میں آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہیں تو ماں باپ سے اور ماحول سے سیکھتے ہیں ۔ تب کہیں جا کر ان کو معلوم ہوتا کہ لالچ کرنا اچھا نہیں ہے ۔