آدھی جیت

 کورونا وبا کے خلاف احتیاطی تدابیر اور حکمت عملیوں کے مثبت نتائج برآمد اعدادوشمار سے ظاہر ہیں جن کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو متاثر اور لاکھوں کو ہلاک کرنے والی مہلک وبا کا پاکستان میں پھیلاو¿ کافی حد تک کم ہوگیا ہے اور اِس مرض سے متاثرہ ”93فیصد“ مریض شفایاب ہوچکے ہیں یقینا دعائیں‘ عوام کا تعاون اور بروقت حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے حکومتی سمجھ داری پر مبنی ’جامع حکمت عملی‘ کام آئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سترہ اگست کی صبح تک پاکستان میں کورونا کے مصدقہ کیسز کی تعداد 2لاکھ 89ہزار 215 رہی جس میں سے 2لاکھ 69ہزار 87صحت یاب ہوئے جبکہ 6ہزار 175کا اِس مرض کے باعث انتقال ہواہے۔ ایک وقت تھا جب ہر دن ہزاروں کورونا مریضوں کی تعداد بڑھ رہی تھی جو کم ہو کر یومیہ 87 رہ گئی ہے! پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس چھبیس فروری دوہزاربیس کراچی میں سامنے آیا تھا‘ جس کے بعد یہ وبا ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیلتی چلی گئی اور ایک وقت میں صورتحال اِس حد تک کشیدہ ہو گئی کہ حکومت کو تعلیمی ادارے بند کرنا پڑے‘ جن کی بندش کو چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور متوقع ہے کہ سات ستمبر کو طے شدہ اجلاس میں غور کرنے کے بعد پندرہ ستمبر سے ملک بھر میں تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق بحال کر دی جائیں گی۔ کورونا وبا کے پاکستان میں پھیلنے کا عمل حکومت کے چند غلط فیصلوں کی وجہ سے ہوا‘ جس میں فضائی اور زمینی سرحدوں سے آمدورفت کو بروقت بند نہ کرنا شامل ہے تاہم غلطی کا احساس کرنے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا گیا اور عالمی اداروں کی رہنمائی کی روشنی میں ایسی جامع حکمت عملی وضع کی گئی جس سے کورونا پر قابو پانے میں آسانی رہی تاہم وقت کے ساتھ معاشی و سماجی سرگرمیوں پر عائد پابندیاں بڑی حد تک ختم کر دی گئیں کیونکہ کورونا کیسز کی تعداد میں کمی آ چکی ہے لیکن یہ ’آدھی جیت‘ ہے اور اِس کا جشن بھی آدھا ہی منایا جانا چاہئے کیونکہ ایک طرف اگر کورونا وبا کا پھیلاو¿ روک لیا گیا ہے جس کا علاج تاحال دریافت نہیں اور کورونا وبا کسی بھی وقت دوبارہ پھیل سکتی ہے جبکہ دوسری طرف پولیو ایک قابل علاج مرض ہے کہ جس کا علاج موجود ہے اور یہ علاج پاکستان کو عالمی اداروں کی جانب سے مفت فراہم بھی کیا جا رہا ہے۔

 لیکن پولیو کا پاکستان سے وجود عملاً ختم نہیں ہو رہا۔ بالخصوص گزشتہ دو برس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے اور پولیو وائرس کی موجودگی کے معلوم مراکز کی نشاندہی ہونے کے باوجود بھی اِس مرض کو روکا نہیں جا سکا۔ پاکستان کو باضابطہ طور پر پولیو سے پاک ملک قرار دینے کے لئے‘ اسے پولیو سے متاثرہ ایک بھی مریض کے سامنے آئے بغیر مسلسل تین رہنا ہوگا۔ سال 2018ءمیں ایک موقع پر یہ اُمید پیدا ہوگئی تھی کہ پولیو کا خاتمہ ہو جائے گا اور عالمی سطح پر پاکستان کو ’پولیو فری ملک‘ قرار دیدیا جائے گا لیکن پولیو پھر سے حملہ آور ہوا اور تیزی سے پھیل گیا۔ کورونا وبا کی وجہ سے گزشتہ کئی مہینوں سے انسداد پولیو کی مہمات معطل رہیں جنہیں ایک ناقابل یقین وقفے کے بعد دوبارہ شروع تو کر دیا گیا ہے اور اِس مرتبہ (29 اضلاع میں اکیس اگست تک) پانچ سال سے کم عمر 90لاکھ 26ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔ بدقسمتی ہے کہ کورونا وبا سے پولیو مہم کو دھچکا لگا ہے جبکہ پاکستان پولیو سے چھٹکارا حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ پولیو کا خاتمہ نہ ہونے کی وجوہات میں امن و امان کا مسئلہ بھی شامل ہے اور اِس مرض کے خلاف گمراہ کن باتیں پھیلانے والوں کی بھی قطعی کوئی کمی نہیں اور المیہ یہ بھی ہے کہ مانع پولیو ادویات کے خلاف سازشی نظریات پھیلانے والوں کی بات کو آج بھی بڑی توجہ سے سنا جاتا ہے پھر حکومت کی صلاحیت‘ عزم اور مرضی کا بھی تعلق ہے۔

 جس کی ترجیحات میں انسداد پولیو کبھی سرفہرست تو کبھی واجبی اہمیت حاصل کر جاتا ہے۔ وہ مقام جہاں پاکستان 2018ءمیں پہنچا تھا دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن بچوں کو تاحیات معذور بنانے والے اِس مہلک وائرس کے خاتمے کے لئے لڑائی کو یقینی انداز میں لڑنا ہوگا۔رواں سال کے آغاز میں عالمی سطح پر انسداد پولیو مہمات کی آزادانہ نگرانی کرنے والے ایک ادارے نے نشاندہی کی تھی کہ پاکستان میں پولیو کا انسداد نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صحت سے متعلق مختلف حکومتی اداروں کے مابین تعاون کا فقدان پایا جاتا ہے‘ عالمی نگران ادارے کی جانب پاکستان اور افغانستان پر زور دیاگیا ہے کہ یہ مل کر کام کریں کیونکہ ماضی میں جبکہ ایک موقع پر پاکستان سے پولیو کا مکمل خاتمہ ہونے کے قریب تھا تو پاکستان الزام عائد کر چکا ہے کہ پولیو وائرس افغانستان سے منتقل ہوا تھا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان غیرروایتی سرحدی آمدورفت میں باڑ لگانے سے بڑی حد تک کمی آ چکی ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں کو بندوبستی علاقوں میں ضم کرنے کے بعد اُمید تھی کہ حکومت صحت کی سہولیات کا دائرہ نئے ضم شدہ اضلاع تک وسیع کر دے گی اور وہاں امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہوگی لیکن ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا جس کی توقع تھی اور جس کی موجودہ حکومت سے توقع ہے کہ اِس کی باقی ماندہ آئینی مدت میں پاکستان سے پولیو کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔