تنقید کی بارش

 پاکستان میں درس و تدریس کا وسیع و عریض نظام آبادی کے تناسب سے اپنی ساخت‘ مقدار اور معیار کے لحاظ سے ناکافی ہے جو حکومتی کارکردگی کا عکاس ہے۔ یکساں نظام تعلیم اور نصاب متعارف کروانے کا وعدہ اپنی جگہ لیکن غیرملکی امتحانی بورڈز سے وابستہ ہزاروں طلبہ اور اُن کے والدین کی پریشانی حل کر کے بھی حکومت کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوا اور اب اِس بات پر تنقید ہو رہی ہے کہ لاکھوں روپے فیس دینے اور بیرون ملک امتحانی بورڈزسے وابستہ طلبہ کی پریشانی دور کرنے کے لئے فوری کاروائی کی گئی لیکن پاکستان کے اپنے امتحانی نظام کی اصلاح اور اِن سے وابستہ طلبہ کی پریشانیوں پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ کیمبرج یونیورسٹی (برطانیہ) نے ایک پیغام جاری کیاہے جس کے مطابق کیمبرج اسسمنٹ انٹرنیشنل ایجوکیشن امتحانات کے گزشتہ ہفتے جاری کئے گئے نتائج پر جو سخت تنقید کی گئی تھی اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے ادارے نے جاری کردہ نتائج واپس لے لئے ہیں اور جون 2020 سیریز کے نتائج برقرار رہیں گے۔ کورونا وبا کے باعث اِس مرتبہ کیمبرج تاریخ میں پہلی بار امتحانات کا انعقاد نہیں ہوا اور کیمبرج نے سکولوں اور کالجوں سے طلبہ کے اکیڈمک شواہد جیسا کہ فرضی امتحانات‘ مکمل یا نامکمل کورس ورک اور اسائنمنٹس وغیرہ کی بنیاد پر نتائج تیار کرنے کو کہا تھا جبکہ اساتذہ سے طلبہ کی درجہ بندی بھی طلب کی گئی تھی۔ ادارے نے کہا کہ ان کی جانب سے جاری کئے گئے نتیجے میں جس طلبہ کا جو نتیجہ بہتر گریڈ کا تھا‘ اسے کم نہیں کیا جائے گا۔

 وفاقی وزیر تعلیم نے بھی اسی حوالے سے اپنی ٹویٹ پیغام میں پاکستانی طلبہ کو خوش خبری سنائی کہ ”کیمبرج سکولوں کی جانب سے لئے گئے نتائج ہی حتمی تسلیم ہوں گے اور ان کے بہتر گریڈ آئے ہیں انہیں کم نہیں کیا جائے گا۔“ برطانیہ میں اس حوالے سے طلبہ اور ان کے والدین میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا جس کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں اے اور او لیول کے طلبہ کے نتائج ان کے اساتذہ کی جانب سے دیئے جائیں گے اور اس کے لئے الگورتھم کا استعمال نہیں ہوگا۔ برطانوی سیکرٹری تعلیم گیون ولیمسن نے ان نتائج کی وجہ سے ہونے والی پریشانی پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ سکولوں کی جانب سے لئے گئے فرضی امتحانات کے نتائج اب اپیل کرنے کے طریقہ کار کا حصہ نہیں ہوں گے۔ طلبہ اور والدین نتائج کے پورے نظام میں موجود ’بے ربطیوں‘ سے متاثر ہوئے ہیں۔ گیون ولیمسن نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ
یہ سال طلبہ کے لئے بالخصوص دشوار رہا ہے۔ کیمبرج کی جانب سے معذرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ اِس وجہ سے طلبہ اور ان کے والدین کو پریشانی اٹھانی پڑی تھی۔ سوشل میڈیا صارفین نے کیمبرج کے اِس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور وہ اِسے حکومت‘ ذرائع ابلاغ اور کیمبرج کی جانب سے دردمندی کے مظاہرے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ سردست کیمبرج طلبہ کو اس بات کی خوشی ہے کہ حکومت سرگرم ہے اور پاکستانی طلبہ کا ساتھ دے رہی ہے کیونکہ طلبہ اور والدین کے نکتہ نظر سے یہ معاملہ سنگین نوعیت کا تھا جو خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا ہے۔

 لیکن ہر طرف سے صرف تعریف ہی نہیںبلکہ تنقید برس رہی ہے کہ کیمبرج امتحانات اور نظام تعلیم کے حوالے سے حکومت نے امتیازی سلوک کیا ہے کہ دیگر امتحانی نظاموں سے وابستہ طلبہ کے نتائج و درجہ بندی کی حکومت کو فکر نہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں حکومت کے پاس اِس بات کے اعدادوشمار بھی نہ ہوں کہ سرکاری سکولوں میں زیرتعلیم کتنے بچوں کے پاس درسی کتب ہیں اور کتنے بچے درسی کتب و دیگر ضروریات سے محروم ہیں وہاں اِس بات کی توقع کرنا کہ حکومت کو غیرملکی امتحانی بورڈز سے حاصل ہونے والے نتائج کی فکر ہوگی خود کو بہلانے کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں کوئی ایک بھی سرکاری سکول کیمبرج امتحانات کی تیاری نہیں کرواتا لیکن نجی سکولوں کو اجازت ہے کہ وہ کیمبرج کے معیار پر پورا اُترتے ہوئے اِس نظام سے منسلک ہوجائیں۔ ایسے نجی سکول بھی ہیں جہاں پاکستان کے اپنے امتحانی بورڈز اور کیمبرج کی الگ الگ عمارتیں قائم ہیں اور یہ سب سرعام ہو رہا ہے۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ’اے لیولز والے امیر طلبہ کی مدد کے لئے تو حکومت فوری طورپر سامنے آئی اور برطانیہ تک سے رابطے کر کے اپنی بات منوا لی گئی لیکن پاکستان میں داخلی طور پر درس و تدریس اور امتحانی نظام کو جس قسم کے حالات کا سامنا ہے اُسے درست کرنے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ آخر گیارہویں اور بارہویں جماعت کے اُن غریب طلبہ کے بارے میں کون سوچے گا کہ جن کے خودکار طریقے سے بنا امتحان دیئے گئے امتحانات میں کم نمبر آئے ہیں؟