ہماری سائیکالوجی میں یہ بات داخل ہو چکی ہے کہ جو چیز حسین ہو ہم بجائے اس کے کہ اس کی تعریف کریںالٹا اس کونقصان پہنچاتے ہیں۔ ہم تو ایک بے کنار ہجوم ہیں کون کہہ سکتا ہے ہم ایک قوم ہیں۔قومیں تو و ہ ہیں تو جو بہت بڑی بھیڑ ہو کر بھی دنیا میں ترقی کر رہی ہیں ۔ وہ جو اپنے نقصان کو سمجھتی ہیں ۔ ہجوم وہ ہوتا ہے جس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا جیسے بکریوں کا ریوڑ ہو۔قوم وہ جس کا ایک مشترکہ مقصد ہوتا ہے ۔وہ اس وطن کو سلامت رکھنا ہے ۔وطن اس لئے تو حاصل نہیں کئے جاتے کہ اس کے عوام اس کو تباہ کرنے میں مصروف ہو جائیں۔ہماری قوم کے اکثر لوگوں کو اپنی سرزمین کی کوئی پروا نہیں ۔ اس ہجوم کابس نہیں چلتا کہ چلتی ہوئی بی آر ٹی کے ٹائروں کو کھول دیں۔ یہ لوگ درخت کی جس شاخ بیٹھ کر جھولتے ہیں نادانی میں اسی کو دانتوں سے چھیل کر کاٹنے کے چکر میں ہیں۔ ان کا بس چلتا تو اونچی اونچی پہاڑوں کی چوٹیوں کے سر پر برف کی پہنی ہوئی فضیلت کی دستار کونوچ ڈالتے ۔کس جرم میں ۔ اس جرم میں کہ یہ خوبصورت کیوں ہیں۔اگر ان کے ہاتھ پہنچتے تو یہ لوگ پہاڑوں پر سے درختوں کو جسم کے بالوں کی طرح ایک ایک کر کے اکھاڑ لیتے ۔ان کا زور ہوتا تو یہ بادلوں کو روک لیا کرتے کہ آگے مت جا¶ پہلے یہاں سیلاب برپا کرو اور پھر دوسرے علاقوں کو بربادکرو۔بی آر ٹی بس کے پہلے دن انھوں نے کیا گل کھلائے جہاں پھول کھلانے تھے وہاں کانٹے بوکر چلے آئے ۔ شریف آدمی کی تو زندگی اس شہر ِ سبزہ و گل میں اجیرن ہے ۔
ان کے ہاتھوں تو کسی کل آرام نہیں ۔ اس میٹرو بس کے ساتھ سائیکل چلانے کو فروغ دینے کے لئے سائیکل ٹریک بنایا ۔ یہاں تو ون ویلنگ کرنے والوں کےلئے موٹر سائیکلنگ کا ٹریک ہونا چاہئے تھا ۔کیونکہ چودہ اگست کے موقع پر انھوں نے شہر بھر کو یرغمال بنا لیاتھا ۔ شریف شرفاءتو ڈر کے مارے گھر سے باہر نہ نکلے کہ کہیں ہمارے سامنے ہماری خواتین پر آوازے نہ کسے جائیں ‘ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔ شہر بھر میں ایک افراتفری کا عالم تھا اودھم مچا ہوا تھا ناک میں دم کیا جا رہاتھا ۔ بھونپو بجا بجا کر کان پڑی آواز بھی راستے ہی میں روک دی گئی تھی۔ بی آرٹی بس کی سیٹیوں کوچاقو سے چھیل کر دو ٹکڑے کر دیا تھا۔ ویڈیو کال پر اپنے پیاروں کو دیکھا کہ بس میںبیٹھے ہیں مگر جس قیامت سے وہ گذر کر آئے اس کو دیکھ کر سوچا شکر ہے ہم نہ گئے ۔اب تو پولیس نے بی آر ٹی کو گھیرا ڈال دیا ہے ۔ یہی ہوتا ہے کہ جب یہ ہجوم بے قابو ہو جاتا ہے اور ان پر پولیس کی ناکہ بندیاں اور پابندیاں اور نگرانی مسلط کر دی جاتی ہے تو پھر وردی والے اداروں کے خلاف یہ لوگ زہر اگلنا شروع کر دیتے اور فیس بک پر تصویریں اپ لوڈ کر کے اپنے حمایتی تلاش کرتے ہیں۔مگر اپنی حرکات پر نہ انھیں کوئی پشیمانی ہوتی ہے اور نہ ہی حیرانی ہوتی ہے ۔ان کی ناہنجار عادتوں کی شکایت اب سے تو نہیں چار دہائیوں سے تو میں دیکھ رہا ہوں یہ لوگ سینما گھروں میں فلم بھی دیکھتے ہیں اور صلے کے طور پر واپسی پر سینما کی سیٹ کی ریکسین کو بلیڈ سے کاٹ کر چلے آتے ہیں۔باواجی یہ تو اپنا نقصان ہے کسی اور کے خسارے کی تو بات ہی نہیں۔ اگر اربوں روپے کی لاگت ہوئی اور میٹرو پشاور تعمیر ہوئی ۔
پھر اس کو آپ نے نقصان پہنچایا تو اس کا خرچہ کہاں سے آئے گا ۔ گھر گھر جا کر چندہ تو نہیں لیا جائے گا ۔ہمارے سالانہ بجٹ میں سے پیسے کٹیں گے اور اس پرلگیں گے ۔جو پیسے تعلیم پر لگناتھے وہ ان نقصانات پر لگ جائیں گے ۔جلوس کے دوران میں جو شیشے توڑے گئے وہ کوئی شیشہ گر کوئی آئینہ ساز آکر ٹھیک تو نہیں کرے گا اور معاوضہ کسی ایک بندے سے تو نہیں لے گا یہ سرکاری فنڈ میں سے کٹوتی ہوگی اور پھر یہ کٹوتی سالانہ بجٹ سے ہوگی ۔ پھرکیا ہوگا ترقیاتی بجٹ کمزور پڑ جائے گا۔ خدا کرے کہ وطن کو نقصان پہنچانے والے لوگ سمجھیں ۔مگر اس نادانی پر اقبال نے برتری ہری کے شعر کا جو ترجمہ اردو میں کیا یاد آیا ہے ” پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر۔ مردِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک بے اثر“ ۔ان پر اثر ہو تو بہت مدت اور بھی گزر جائے گی ” تم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک ۔ شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک“۔