گزشتہ جمعرات کواچانک سامنے آنے والے اس بیان کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا ہے نے پوری دنیا کو بالعموم اور عالم اسلام کو بالخصوص ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین متذکرہ مفاہمت کو ایک بہت بڑی پیشرفت قراردیتے ہوئے اسے امریکہ کے دو عظیم دوستوں کے مابین تاریخی امن معاہدے سے تعبیر کیاہے۔ دوسری جانب واشنگٹن میں متعین متحدہ عرب امارات کے سفیر نے اس معاہدے کادفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعلان ڈپلومیسی اور خطے کی جیت ہے ۔بعد ازاں ایک مشترکہ بیان میںٹرمپ، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید النہیان نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے جمعرات کے روز بات چیت کی ہے اور اسرائیل اور عرب امارات کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے پر اتفاق کیا ہے۔اس امن معاہدے کے حوالے سے اب تک میڈیا میں یہی تاثر دیاجاتا رہا ہے کہ غرب اردن پرفلسطین کا حق ملکیت تسلیم کئے جانے کے علاوہ یہاں سے یہودی آبادکاروں کی بے دخلی اس معاہدے کا اہم حصہ ہے لیکن یہاں یہ امر حیران کن ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نہ صرف ایسی کسی شرط کو مسترد کر چکے ہیں بلکہ انہوں واضح الفاظ میں یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اسرائیل غرب اردن میں یہودیوں کی آبادکاری کے اپنے منصوبے پر عمل درآمد پہلے کی طرح جاری رکھے گا اسرائیل کے ماضی اور مستقبل کے عزائم کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی پرلے درجے کا بے وقوف ہی مشرق وسطیٰ میں پائیدار اور مستقل امن کے قیام کے اسرائیلی دعوﺅں پر یقین کرے گا۔
اسرائیلی عزائم کا بھانڈاایک سینئر اسرائیلی عہدے دار نے گزشتہ روز یہ کہہ کر پھوڑاہے کہ مغربی کنارے کے علاقوں پر اسرائیلی خودمختاری کا اطلاق ابھی بھی نیتن یاہو حکومت کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔اس اہلکارکاکہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان سے غرب اردن کی خودمختاری کے اعلان کو عارضی طور پر معطل کرنے کے لئے کہا ہے تاکہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ تاریخی امن معاہدے پر عمل درآمد ہو سکے۔دوسری جانب اسرائیل یو اے ای معاہدے کادفاع کرتے ہوئے عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ ایک جرات مندانہ اقدام ہے تاکہ طویل عرصے سے جاری اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کو حاصل کیا جاسکے۔افسوس اس بات پر ہے کہ زیر بحث معاہدے میں آخر ایساکون سا الہ دین کا چراغ ہے جسے رگڑتے ہی اسرائیل فلسطینیوں کو آزادی دینے پر مجبور ہوجائے گا۔ اس تلخ حقیقت سے بھی ہر کوئی واقف ہے کہ یو اے ای اسرائیل معاہدے کا زیادہ فائدہ تو یقیناً اسرائیل کوہی ہوگا ،عین ممکن ہے کہ یو اے ای کو بھی اس سے کوئی عارضی اقتصادی فائدہ پہنچ جائے۔
لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس سے کم از کم فلسطینیوں کو کچھ فائدہ پہنچنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ایک انٹرویو میں اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین نے اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو جوعرب ممالک اسرائیل کے دوست اور شراکت دار بنتے جائیں گے وہ ریاستیں امریکہ کے علاقائی اتحادی بھی بنتے جائیں گے، انہوں نے کہا کہ اس امن معاہدے سے مستقبل میں امارات کوامریکی اسلحے کی فروخت کے بند دروازے بھی کھل جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کےساتھ دوستی کے معاہدے کے بعد عرب امارات امریکی اسلحہ کے ڈھیر خرید کر اس کا کرے گا کیا، کہا جاتا ہے کہ عرب امارات کے بعد بحرین اور اومان بھی اسرائیل سے دوطرفہ تعلقات استوار کرنے کے لئے قطار میں ہیں جب کہ اب تو سوڈان جسے کچھ عرصہ پہلے تک اسرائیل کا خطے میں ایک بڑا نظریاتی دشمن سمجھا جاتاتھا کے ساتھ بھی دوستی کی پینگیں بڑھنے کی اطلاعات منظر عام پر آ چکی ہیں جس سے مشرق وسطیٰ کا سیاسی نقشہ تبدیل ہوتا ہو انظر آ رہا ہے۔