پرندہ اڑے کے جاناچاہتاہے

 جسے دیکھو اُڑ کر مالدار ملکوں کی کاروباروالی عمارات پر ڈیرہ جمانا چاہتا ہے مگر ان کے پر کاٹ دیئے گئے ہیں ‘حالانکہ” تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر“ ۔مگر اس وقت پہاڑوں کی چٹانوں پر کچھ بھی نہیںہے ہمارا یہ شاہین تو بھوکا ہے جسے کچھ نہیں مل رہایہ کہاں جائے ‘پہاڑوں پر نہیں مگر اب تو قصرِ سلطانی کے گنبد پر ہی اس کو کچھ ملے تو ملے کیونکہ اس گنبد کے تلے ایوانِ سفید و ایوانِ مرمریں ہیں جن میں ویڈیو لنک کے ذریعے پورے ملک کے وزراءو مشیران اکٹھے اورقریب قریب ہیں ایک مٹھی ہیں‘ مگر ایک دوسرے سے جسمانی فاصلہ کے ذریعے سینکڑوں میل دور ہیں ۔وہاں نیچے ٹھنڈے ہال میں جو باتیں ہو رہی ہیں ان میں اربوں کے حساب سے درخت لگانا اور کروڑوں نوکریاں دینا ہے۔ غریبوں کو گھر بناکر آسان اقساط میں دینا نوجوانوں کو کروڑوں کے قرضے بلا سود دینے ہیں پھر جب اگلی کانفرنس ہوتی ہے تو اس میں یہی باتیں دہرائی جاتی ہیں‘ پھر تیسری الیکٹرانک گول میز کانفرنس کے ایجنڈے میں بھی یہی باتیں ۔ یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے صرف باتیں ہیں اور پھر اس کے بعد دوبارہ باتیں ہیں اگر عمل کا وقت آئے تو اس وقت بھی خالی خولی برتن کی کھنکتی ہوئی صدائیں ہیں ‘بس یہی سنتے رہو اور مزے لیتے رہو‘ یہاں ہماری معیشت برباد ہو گئی ہے بلکہ یوں کہو تو زیادہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس وقت ملک مشکل حالات میں ہے تاہم یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ مشکلات اور مصائب کے نکلنے کے راستے ہمہ وقت کھلے ہوتے ہیں۔

 ضرورت ہے تو ان راستوں کو پہنچانے کی‘ حکومت نے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے جو منصوبے شروع کئے ہیں انکو اگر صحیح سمت میں چلنے دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بیروزگاری اور غربت میں کمی ہو یعنی مایوسی سے ہٹ کر امید کے دیئے کو جلائے رکھنا زیادہ مناسب طرز عمل ہے یہ رونا کہ معیشت برباد کر دی گئی ہے ۔ہمارا روپیہ روز بروز ڈالر کے روبرو نیچے اور نیچے جا رہاہے زیادہ مناسب نہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی ہے جوکہ سر چڑھ کر سر میں آدھے سر کا درد کئے دیتی ہے گولیاں میڈیسن اثر ہی نہیں کر رہیں کہ کوئی خریدے تو استعمال کرے پھر خرید لے بھی تو کیا کرےگا ۔ پہلے ایک گولی کھاتا تھا اب دو گولیاں نگلنا پڑتی ہیں ۔ کیونکہ گولی کا ریٹ الگ بڑھ گیا ہے اور ساتھ ہی گولی کاوزن بھی آدھا کم ہو گیا ہے ‘نوکریوں کےلئے اب بھی رقم کے مطالبے ہیں یہ نظام جو خراب ہے آج سے نہیں اور اسے آج کے آج تو ٹھیک بھی نہیں کیا جا سکتا یہ تو نصف صدی کا قصہ ہے یہ پل دو پل کی بات نہیں ان دنوں مصطفی زیدی کا شعر اکثر مجھے یاد آتا ہے چالیس سال کی عمر میں جواں مرگ سی ایس پی افسر تھے بہت شاعری کی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں خوب مقبول تھے اور اب بھی ہیں یہ شعر انھیں کا ہے۔

 ” میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ۔تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے “ پھر ان کا جو شعر مجھے ان دنوں یاد آتا ہے یہ ہے کہ ” کرو فکر تو بس اس کا کہ نظام ابھی وہی ہے ارے یہ بھی کوئی غم ہے کہ نہ مل سکیں گے ہم تم “ ملک کے سابق صدر جنرل یحییٰ خان نے جن سی ایس پی افسروں کی نوکری ختم کردی تھی مصطفی زیدی بھی انھیں میں تھے ۔ان کی وفات پچاس سال پہلے ہوئی تھی ۔مگر اندازہ لگائیں کہ وہ کون سا زمانہ تھا اور یہ نظام تب سے خراب ہے اور ابتر ہے ٹھیک نہیں ہو پاتاہر دور میں ہم یہی کہتے ہیں پاکستان اس وقت اپنے سخت ترین حالات سے گزر رہاہے ۔پھر ہر حکمران کہتا ہے پچھلے بادشاہِ وقت نے سب کچھ بگاڑا ہے ‘اب جو آئندہ جو آئینگے وہ ان موجودہ کارکنان کے کاموں میں سے وہ وہ کیڑے نکالے گے کہ دنیا دیکھے گی اب اس روش کو ختم ہونا چاہئے اور اگر کوئی مثبت قدم اٹھاتا ہے تو اس کی تعریف بھی ضروری ہے۔