جارحانہ شکست

 پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان دوسرا کرکٹ ٹیسٹ بھی ایک ایسا ٹیسٹ ثابت ہوا جس میں پاکستان کو ایک مختلف محرک کی وجہ سے کامیابی نہ مل سکی حالانکہ اگر بروقت بارش نہ ہوتی تو اِس کھیل کا آغاز بھی ایسا ہی تھاکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی شکست یقینی ہوتی۔ سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں بارش کے باعث کم ہی کھیل ممکن ہوسکا اور یوں یہ میچ ڈرا پر اختتام پذیر ہوا‘ جس کے سبب قومی ٹیم کے ہاتھ سے سیریز جیتنے کا موقع نکل چکا ہے اب جو بھی ہو لیکن پاکستان ٹیسٹ سیریز جیت نہیں سکے گا کیونکہ برطانیہ کو ایک صفر کی پہلے ہی برتری حاصل ہے۔ تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ جیت کر قومی ٹیم سیریز برابر ضرور کرسکتی ہے لیکن پاکستان کے دو سینئر بلے بازوں اظہر اور اسد کی فارم کو دیکھتے ہوئے کامیابی کی امید رکھنا رکھنا منطقی نہیں البتہ جارحانہ شکست کے امکانات ابھی بہت ہیں! اظہرعلی نے اب تک تین اننگز میں چالیس اور اسد شفیق نے اکتالیس رنز بنائے ہیں اور چونکہ کرکٹ کے فیصلہ سازوں نے اِن دونوں کو ’بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا‘ اِس لئے کھیل کے ماہرین و تماشائیوں کی جانب سے تنقید سنائی دے رہی ہے اور سوشل میڈیا پر چونکہ کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی اِس لئے کچھ ایسی باتیں بھی کہی جا رہی ہیں جو تحریر میں نہیں لائی جا سکتیں۔ بہرحال ٹیم کے انتخاب اور کھلاڑیوں کی کارکردگی جیسے دو بنیادی امور میں ”سنجیدگی کا فقدان“ اظہرمن الشمس ہے۔

اظہر علی نے دس سال قبل برطانیہ ہی میں آسٹریلیا کے خلاف اپنے ٹیسٹ کیرئر کا آغاز کیا تھا جبکہ اسد اس کے چند ماہ بعد متحدہ عرب امارات میں جنوبی افریقہ کے خلاف پاک ٹیم کا حصہ بنے۔ مصباح الحق کو اسی سیریز میں کپتانی ملی تھی اور ساتھ ہی یونس خان کی ٹیم میں واپسی بھی ہوئی تھی۔ سال 2012ءکے دوران برطانیہ کے خلاف انتہائی مشکل حالات میں اظہر نے 157رنز کی بہترین اننگ کھیلی اور یونس خان کے ساتھ 216رنز کی شراکت داری قائم کی تھی۔ سال 2014ءمیں شارجہ کے میدان پر سری لنکا کے خلاف کھیل کے آخری دن مشکل ہدف کے تعاقب میں سرفراز اور مصباح الحق کی تیز اننگز ضرور اہمیت کی حامل تھیں مگر اننگ کو سنبھالنے والی سنچری اظہر نے بنائی تھی۔ اسی سال آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا اعزاز بھی اظہر کے نام رہا۔ سال 2015ءمیں اظہر نے اپنی پہلی ڈبل سنچری بنگلہ دیش کے خلاف بنائی لیکن 2016ءکا سال اظہر کے کیرئر کا کامیاب ترین عرصہ ثابت ہوا۔ اظہر نے دوہزار سولہ کے دوران تین سنچریاں بنائیں اور یہ سب یادگار ثابت ہوئیں۔ ان میں سے ایک سنچری برطانیہ کے خلاف‘ دوسری ویسٹ انڈیز اور تیسری آسٹریلیا کے خلاف میلبورن میں ڈبل سنچری تھی۔

 اظہر پاکستان کی جانب سے ٹرپل سنچری بنانے والے چوتھے بلے باز ہیں۔ اظہر کے مقابلے اسد شفیق تکنیکی اعتبار سے بہتر ہیں لیکن اسد کی کارکردگی میں تسلسل نہیں۔ یہ کبھی کم اور کبھی زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ وہ چند گیندیں اطمینان سے کھیلتے ہیں تو تاثر ملتا ہے کہ دیر تک کھیلیں گے لیکن اگلے ہی لمحے انتہائی عام سی گیند پر وکٹ دے بیٹھتے ہیں اُور یہی اسد شفیق کی سب سے نمایاںکمزوری ہے کہ اُن پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ الغرض پاکستان کے اِن دونوں سینئر بیٹسمینوں نے شائقین کو مایوس کیا ہے۔ اظہر کو جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں خراب کھیل کے باوجود ٹیسٹ ٹیم کا کپتان برقرار رکھا گیا‘ جس پر کافی سوال بھی اٹھے۔ یہاں ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ اگر سرفراز کو کمتر کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم اور کپتانی سے فارغ کردیا گیا تو کیا وجہ تھی کہ سرفراز کی جگہ بننے والے کپتان اظہر علی کو مسلسل ناکامی کے باوجود یہ عہدہ دیا گیا اور اب اسے برقرار رکھا گیا ہے؟ شاید اظہر علی کے ساتھ بھی کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا کیونکہ ایک تو اُن کی کارکردگی خراب ہے اور دوسرا کپتانی کی ذمہ داری ان کے لئے اضافی بوجھ ثابت ہورہی ہے۔ بطور کپتان جو اظہر نے آخری چھ میچ کھیلے ہیں ان میں وہ صرف ایک مرتبہ ہی اچھا اسکور بنا سکے ہیں۔ برطانیہ کے خلاف جاری مقابلوں میں پہلی بار ان پر حالات کا دباو¿ پڑا اور وہ اس کا سامنا کرنے میں بظاہر ناکام رہے ہیں۔

ایک بڑی پارٹنرشپ کے دوران باو¿لرز کی تبدیلی اور فیلڈرز کے تعین میں ایسا کچھ نظر نہیں آیا جس سے لگے کہ کپتان کچھ نیا سوچ رہا ہے۔ بظاہر کوچز کی طرف سے بھی کوئی خاص حکمت عملی کپتان کو مہیا نہیں کی گئی۔ اس لئے اگر جاری سیریز میں دونوں سینئر بیٹسمینوں کی ناکامی اور کپتانی ایسے ہی چلتی رہی تو پاکستان کے لئے ٹیسٹ سیریز برابر کرنا بھی ناممکن ہی رہے گا۔ اظہر علی اور اسد دونوں اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ اگر ایک بار اُنہیں ٹیم سے باہر کیا گیا تو اِن کی واپسی مشکل ہوجائے گی کیونکہ نہ دونوں میں نہ تو مصباح الحق جیسا حوصلہ ہے اور نہ ہی یونس خان جیسی لگن جو ان کے کھیل میں واپسی کو ممکن بناسکے۔ بہرصورت وقت تبدیلی کا ہے۔ پاکستان کو ٹیسٹ ٹیم میں تبدیلیاں کرنا ہوں کیونکہ کرکٹ میں نام کمانے کی دوسری کوئی بھی باعزت صورت نہیں رہی۔ ٹیسٹ کرکٹ ہی وہ اہم شعبہ ہے جس میں قومی ٹیم موجودہ حالات میں کمزور نظر آرہی ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر اس مقصد کے لئے ڈومیسٹک ڈھانچے میں تبدیلی ناگزیر ہے تو اسے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔