پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ’سدا بہار‘ ہونے کی کئی وجوہات میں دونوں ممالک کا اسلامی تشخص خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اگر سعودی عرب اسلام کا مرکز ہے تو اِس مرکز کا دفاع اور حفاظت میں پاکستان سے زیادہ کسی دوسرے اسلامی ملک نے کبھی بھی دلچسپی نہیں لی بلکہ ہر اسلامی ملک سعودی عرب میںاپنا مقصد اور فائدہ تلاش کرتا ہے جبکہ پاکستان کی دوستی صرف حکومتی نہیں بلکہ عوام کی سطح پر بھی بے لوث اور آزمودہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ برس جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر تشریف لائے‘ تو ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بقول وزیراعظم عمران خان اگر وہ اُس وقت پاکستان سے انتخابات کرواتے تو ایک مرتبہ پھر کامیاب ہو جاتے۔ دورے میں ولی عہد کی مثالی آو¿ بھگت ہوئی اور انہوں نے بھی جواباً اسی گرم جوشی سے خلوص لوٹایا اور پاکستان کو یقین دہانی کروائی کہ وہ انہیں سعودی عرب میں اپنا سفیر سمجھیں۔ مذکورہ دورے کے دوران بیس ارب ڈالر کے سمجھوتوں پر دستخط ہوئے اور ایسا محسوس ہوا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تاریخی رشتوں کو اِس سرمایہ کاری سے نئی جہت مل گئی ہے لیکن اٹھارہ ماہ بعد بھی پاکستان سعودی سرمایہ کاری کی راہ دیکھ کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے مقابلے سعودی عرب نے کئی ہزار گنا زیادہ سرمایہ کاری بھارت میں کر رکھی ہے! پانچ اگست کے روز جب پاکستان میں کشمیری مسلمانوں کی جہدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اُسے دنیا کے سامنے اُجاگر کرنے کے لئے ”یوم استحصال“ منایا گیا تو اِس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک نجی نیوز چینل (اے آر وائی) سے بات چیت کرتے ہوئے ”پہلی مرتبہ“ بنا کسی تمہید اور مصلحت کشمیر کے معاملے پر سعودی عرب کی پالیسی پر مایوسی کا اظہار کیا جس کا ہر ایک حرف لفظ اور جملہ سچائی پر مبنی تھا۔ کیونکہ سعودی عرب نے صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ فلسطین‘ بوسنیا‘ افغانستان‘ برما‘ عراق‘ اور چین کے مسلمانوں کے لئے بھی کبھی آواز نہیں اُٹھائی۔
شاہ محمود قریشی نے جو کچھ بھی کہا وہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے مثلاً یہ کہ ”سعودی عرب اور پاکستان کے بہت عمدہ تعلقات ہیں۔ احترام اور محبت کا رشتہ ہے۔ پاکستانی مکہ اور مدینہ کی سالمیت پر جان دینے کے لئے تیار ہیں اور آج میں اُسی دوست ملک (سعودی عرب) سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کا مسلمان اور وہ پاکستانی جو آپ کے لئے لڑ مرنے کو تیار ہے آج وہ آپ سے تقاضا کر رہا ہے کہ آپ (کشمیر کے معاملے پر) وہ قائدانہ کردار ادا کریں جو مسلم امہ آپ سے توقع کر رہی ہے اور اگر نہ کیا تو میں عمران خان سے کہوں گا کہ ’سفیر کشمیر‘ اب مزید انتظار نہیں ہو سکتا۔ ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ سعودی عرب کے ساتھ یا اس کے بغیر۔“ پاکستان کے وزیر خارجہ کی جانب سے کھلے عام سعودی عرب سے اِس شکوے پر سفارتی حلقوں میں گویا تہلکہ مچ گیا۔ اس بیان کو نہ صرف ریاض بلکہ پاکستان کے کچھ حلقوں میں بھی ناپسندیدگی سے دیکھا گیا۔ کچھ سیاستدانوں‘ تجزیہ کاروں اور مذہبی حلقوں نے اسے وزیر خارجہ کی ذاتی رائے سے تعبیر کیا تو کہیں اسے وزیراعظم پر مخصوص اثرورسوخ کا نتیجہ قرار دیا گیا تاہم وزیراعظم عمران نے کہا ہے کہ ”سعودی عرب کے ساتھ اختلافات نہیں بلکہ مضبوط برادرانہ تعلقات ہیں۔ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے اعتبار سے فیصلہ کرتا ہے اور سعودی عرب کی بھی اپنی (الگ خودمختار) خارجہ پالیسی ہے۔“ تاہم وزیر خارجہ کے مذکورہ بیان کے بعد پسِ پردہ سفارتکار حرکت میں آئے اور سعودی سفیر نے رابطے شروع کر دیئے اِس سلسلے میں سب سے اہم رابطہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے تھا۔
جن سے سعودی سفیر نواف سعید المالکی نے راولپنڈی (جنرل ہیڈکواٹرز) میں ملاقات کی۔شاہ محمود نے صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ جس کی فیصلہ سازی پر سعودی عرب حاوی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے پاکستان مسلسل اس معاملے پر اسلامی ملکوں کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ایک سال کی کوششوں کے باوجود بھی خاطرخواہ کامیابی نہیں ہو سکی۔ اب ایسی بے فیض دوستی اور تعلق کا کیا فائدہ جس سے نہ تو پاکستان کے معاشی مسائل حل ہوں اور نہ ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سب سے بنیادی نکتہ ’کشمیر پالیسی‘ ہی کو آگے بڑھانے میں سعودی عرب کا مالی و سیاسی اثرورسوخ کام آ رہا ہے۔پاکستان سمجھتا ہے کہ اگر اِس کی خارجہ پالیسی کا کوئی مقصد پورا نہیں ہو رہا ہو تو وقت ہے کہ خارجہ پالیسی سے متعلق حکمت عملی تبدیل کرنا پڑے۔ کشمیر کے معاملے میں ہم نے دیکھا ہے کہ کئی اسلامی اور دوست ملکوں کا اپنا قومی مفاد پاکستان کے قومی مفاد (مو¿قف) سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسی صورت میں آپ ایسے دوست ملکوں کا چناو¿ کرتے ہیں‘ جن کا قومی مفاد ہم آہنگ ہو جبکہ ہر دور میں سعودی عرب نے جہاں پاکستان کا ساتھ دیا ہے وہاں گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کے مقابلے بھارت سے زیادہ تجارتی رشتوں کو استوار کیا ہے ‘ سی پیک کے تحت گوادر بندرگاہ اور تعمیراتی منصوبوں سے پاکستان کی حیثیت متحدہ عرب امارات سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی‘ جو دنیا کی تجارتی راہداری کا مرکز بنا ہوا ہے لیکن اُس کے پاس پاکستان جیسا دفاع اور قدرتی وسائل بھی نہیں۔ دوسری طرف امریکہ نے ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں تو ایسا کوئی بھی منصوبہ جس سے ایران کو معاشی طور پر فائدہ ہو یا چین کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے کو تقویت ملے پاکستان کےلئے مریکہ کی ناپسندیدگی و ناراضگی کا مو¿جب بھی ہوگا اور ایسی کسی مہم جوئی سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ کر خطرات مول لینے چاہئےں کیونکہ خارجہ پالیسی میں ’یوٹرن‘ لینا بسا اوقات ممکن ہی نہیں ہوتا۔