رہائش یاخوراک

جس بھی کسی ملک میں غربت کی سطح کا اندازہ لگانا مقصود ہو تو اس کیلئے بڑا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ ایک خاندان کو روزانہ تین وقت کی روٹی میسرہوتی ہے؟ رہائشی مکانات کتنی تعداد میں ہیں یا ان کی ساخت کا معیار کیا ہے غربت کا اندازہ لگانے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا اپنے وطن عزیز میں غربت کی سطح کل آبادی کا ایک تہائی حصہ بنتی ہے جو خوراک کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں غربت کی سطح سے اوپر والے شہریوں کا بھی اولین مسئلہ خوراک کی اشیاءکی قلت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا ہے ماضی میں ہندوپاک کی بڑی خوش قسمتی رہی ہے کہ یہ خطہ زرعی لحاظ سے نہ صرف خود کفیل تھا بلکہ بیرون ملک تجارت اور کمائی کا بڑا ذریعہ بھی زرعی زمین سے حاصل ہوتا تھا رہائش کا بھی کوئی خاص مسئلہ نہ تھا کیونکہ ایک یا دو کمروں کے مکان میں پورا خاندان بشمول والدین‘ بہن بھائی ، میاں بیوی بہت اتفاق حفاظت اور سکون سے زندگی بسر کرتا تھا یعنی تھوڑی سی زمین کے رقبے میں خاندان کے کئی افراد سما جاتے تھے تاہم اعلیٰ سوسائٹی خاص کر شہری آبادی میں یہ شعور سرایت کرگیا ہے کہ جو مرد شادی رچالے اسے علیحدہ مکان میں رہنا چاہئے اسی طرح سے وہ خاندان جو پانچ چھ افراد پر مشتمل تقریباً دو یا تین مرلے زمین پر رہائش کرتا ہے اس کیلئے اسی مقصد کیلئے پانچ یا چھ گنا بڑا زمین کا رقبہ درکار ہوتا ہے۔

 یا شاید اس سے بھی زیادہ کیونکہ نئی سوچ کے مطابق مکان میں رہنے والے ہر چھوٹے بڑے فرد کیلئے بمع ایٹچڈ واش روم اور سونے کیلئے علیحدہ علیحدہ کمرے چاہئیں دوسری جانب شرح آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا چلاہے رہائش کیلئے اضافی مکانات بنانے کیلئے زمین کی ضرورت ہوتی ہے وہ کہاں سے آئے گی؟ ماضی میں جبکہ پرائیویٹ ہاﺅسنگ سوسائٹیاں ناپید تھیں نئی رہائشی بستیوں کے قیام کیلئے یہ ذمہ داری سرکاری محکموں کو ہی سونپی جاتی تھی تب حکومت پاکستان کی ہدایات کے مطابق لازمی تھاکہ نئے مکانات کی تعمیر کیلئے بنجر زمین کا استعمال ہو جبکہ فصل اُگانے والی زرعی زمین اشیاءخوراک اُگانے کیلئے مخصوص تھیں1980ءکی دہائی میں جب پشاور شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر مکانات کی قلت کا سامنا ہوا تو اس وقت کی شمالی مغربی سرحدی صوبہ کی حکومت نے شہر کے مغربی جانب موجود بنجر زمین کا انتخاب کیا اس بستی کو تکمیل کے بعد حیات آباد کے نام سے موسوم کیا گیا آج حیات آباد جس میں کشادہ سڑکوں کا جال بچھا ہے بے شمار پبلک پارکس ہیں اورجدید طرز سے نئے رہائشی مکانات اور مارکیٹیں قائم ہیں ایک ایسی زمین کی سطح پر ابھرا جہاں تعمیر سے پہلے جھاڑی بھی نہیں اگتی تھی ماضی میں اس وسیع رقبے کو زیادہ ترپشاور میں مقیم افواج پاکستان کی یونٹیں جنگی مشقوں کیلئے استعمال کرتی تھیں ۔

حیات آباد کے بعد حکومت کی طرف سے معروف ریگی للمہ ہاﺅسنگ سکیم کیلئے بھی پشاور کے اطراف میں سابقہ چلماری علاقہ کا انتخاب ہوا اور یوں شہر کے اطراف میں زرخیز زرعی زمین اور میوہ جات کے باغات اپنی جگہ قائم رہ سکے موٹر وے پر اسلام آبا سے پشاور سفر کے دوران تاروجبہ کے مقام پرایک بڑا بورڈ لگا ہوا ہے جس پر مسافروں کی اطلاع کلئے بڑے بڑے حروف میں لکھا ہے Entering the best pear producing area حقیقت اس اطلاع کے برعکس ہے تاروجبہ تو کیا پشاور شہر کی مشرقی حدود سے باہر ناشپاتی یا دوسرے میوے کا ایک درخت بھی دکھائی نہیں دیتا کیونکہ سابقہ باغات کو ختم کرکے رہائشی مکانات تجارتی منڈیوں اور مارکیٹوں نے تمام زرخیز زمین پر قبضہ کرلیا ہے آج پشاور شہر میں ہر قسم کے میوہ جات کی قلت اور بڑھتے ہوئے دام کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آس پاس کے باغات کے خاتمے کے بعد دور دراز علاقوں سے مہنگے داموں میوہ جات لانے پڑتے ہیں اصولاً اور حکومتی احکامات کے مطابق نئی ہاﺅسنگ سکیم کیلئے زرعی زرخیز زمین کا استعمال ممنوع ہے ، جس کی پابندی کویقینی بنانا ضروری ہے ۔ پشاور کے قدیمی رہائشیوں نے دیکھ لیا ہے کہ پشاور کے اردگرد باغات کو کس بے دردی سے اجاڑ کر رہائشی سکیموں میں تبدیل کردیا ہے اور یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہے ‘ پنجاب کے شہر ملتان کے اطراف میں ایکسپورٹ کوالٹی آموں کے باغات کو اجاڑ کرکے رہائشی سکیموں کی نذر کیا جارہا ہے جس تیز رفتاری سے وطن عزیز کی زرعی زرخیز زمین کا خاتمہ ہورہاہے اس سے آنے والے وقتوں میں غذائی قلت بحران کی صورت اختیار کرسکتی ہے جس کا تدارک ضروری ہے ۔