انجامِ کار ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور تین روز پیشتر بادل رات گئے چھپ چھپ کر رو دیئے کیونکہ پشاور والے جھلستی آگ میں بھنے جا رہے تھے چاروں اور بارشوں نے شہروں کو یرغمال کر لیا تھا اس وقت ہمارے شہرِ ناپرساں پر کوئی بادل چھوڑ بدلی سی بھی مہرباں نہ ہوئی تھی ۔ اس سے کچھ روز قبل تو وہ بلا کی تپش اور حرارت تھی کہ اس شہر کے برسوں پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ یہاں کے باسی بے طرح جلے اور جلتے چلے گئے۔ سڑکیں دن دیہاڑے سنسان نہ بندہ نہ انسان۔ جانور نہ پرندے سرِ آسمان ۔ سب اپنی اپنی کمین گاہوں میں چھپ کر کبھی پسینے سے شرابور اپنے جسم و جاں کو دیکھتے اور کبھی اپنے بچوں پر نگاہ کرتے مگر کیا کرتے پھر پرسوں توبادل سارا دن سایہ کئے رہے اور اب برسے اور اب برسے ۔ چراغوں کی طرح آنکھیں جلتی رہیں اور شام ہوگئی۔ بادلوں کا پتا تو تھا کہ جہاں جائیں شہر میںساتھ ساتھ ہیں مگر یہ گھٹا کچھ تو برسے ۔ہوا ٹھنڈی ہو چلی تھی پھر موسم میں دو ایک دن سے گرمی کی وہ کاٹ نہ تھی جو اس سے کچھ روز پہلے تھی کہ زمین پر دانہ رکھو تو بھن جائے گزشتہ سے پیوستہ ”رات کے سناٹے میں دل نے کیا کیا دھوکے کھائے ہیں ۔ اپنا ہی جب دل دھڑکا تو ہم سمجھے وہ آئے ہیں “ کبھی بادلوں کی آواز کمروں کے اندر آتی اور کبھی گمان ہوتا کہ چھم چھماچھم بادلوں کے بند کھل گئے ہیں مگر جب آنکھ لگ گئی اور رات کے پچھلے پہر بارش نے خوب دھمال مچائی اور اس پیاسے شہر کو نہال کر دیا۔بارش سے پہلے کراچی لاہور اسلام آباد اور کوئٹہ کے حال احوال سنائی بھی دیتے اور ٹی وی پر دکھائی بھی دیتے ۔
اس وقت ناصر کاظمی کا شعر دل کو چٹکیاں کاٹتا ” سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل ۔ مگروہ شہرتوپیاسا رہاہے “ اب تو موسم کی خوشگواری نے دل کو مطمئن کر دیا ہے ذرا اک اور بارش ہو جائے تو کیا اچھا ہو ‘تاکہ فصلوں کےلئے جو نمی ضروری ہے وہ آسمان سے شبنم افشانی کرتی ہوئی اُڑ کرآئے اور زمین کے رہنے والے کسانوں کو شاد و آباد کر دے ۔بارش کا تعلق اور تعلقہ بہت سے معاملات کے ساتھ ہے کہیں کھیت کھلیانوں کےلئے خوشحالی اور کہیں ابرباراں کھیت کھلیانوں کے لئے رحمت کی بجائے زحمت ہے ۔دوسری طرف اس بارشوں کے موسم کا علاقہ اُداس دلوں کے ساتھ بھی اس طرح بندھا ہے کہ جیسے جزوِ بدن ہو ۔جو پہلے سے آنکھوں میں دو شمعیں لئے جلتے ہوں وہ بارش کی بوندوں کے ساتھ اور جل جاتے ہیں ۔ورنہ تو میر تقی میر یہ کیوں کہتے کہ ” میں وہ رونے والا چلا ہوں جہاں سے ۔ جسے ابر ہر سال روتا رہے گا“ ۔یہ تو بارش کے ہونے یا نہ ہونے کی باتیں ہیں مگر ہمارے شہر کے المیے بہت ہیں ۔ بارش نہ ہو تو سو طرح کے مسائل ہیں اور مینہ برس جائے تو بیسیوں مسئلے اور بھی سر ابھارتے ہیں ۔راستوں اور سڑکوں پر تالاب بن گئے ہیں ۔جہاں فائدہ ہے وہاں کوئی نہ کوئی نقصان بھی تو ہوتا ہے ۔ورنہ کلی اگر کھل کر گلاب نہ بنے تو کلی ہی رہے تو گلاب کہا ںسے آکر خوشبو سے ایک جہان کو عطر عطر کر دیں۔صدہزارستاروں کا خون نہ ہو تو افق سے نیا آفتاب کیسے ابھرے ۔یہ اندھیرے اُجالے کا اور گرمی سردی پھر شام صبح اور رات دن کا کھیل تو ازل سے جاری ہے ۔ سائنس نے کتنی ترقی کر لی مگر کھیت میں ہل چلا کر کسان اب بھی آسمان کی طرف نگاہ کر کے دامنِ دل میں امیدیں چن لیتا ہے کہ بارش ہوگی تو بارشوں کے موسم کی بھیگی ہریالی آنکھوں میں سر سبزی کی وجہ سے ٹھنڈک کا باعث بنے گی۔کچھ روز قبل کی رات پچھلے پہر کی تھوڑی سی بارش اور چھینٹوں نے ماحول کو ٹھنڈا ٹھار کر تو لیا تھا ۔
مگر دن چڑھا تو سڑکوں پر جب سورج نے اپنی کرنوں کی تپش سے اس زمین کی نمی کو ہڑپ کرنا شروع کیا۔پھر وہی گرد وہی دھول پھر سے ہر راستے میں گاڑیوں کے ساتھ ساتھ دوڑ کر ان کے ساتھ لپک لپک جاتی کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو ۔مگر یہ بڑے لوگ یہ شہری بابو اسے پیچھے چھوڑکر آگے اپناراستہ ناپتے رہے۔یہ تو جو گاڑی گزرتی اس پر صدقے واری جانے لگتی۔اب تو ماحول میں دوبارہ سے بادلوں نے انٹری دے کر بھیگا بھیگا سا دسمبر لوٹا دیا ہے ۔ پھر جانے یہ کب تک ہو ۔مگر اگست بھی تو مائل بہ اختتام ہے ۔ پھر ستمبر تک دس دن اگر اچھے گزر گئے تو سمجھو کہ جو سخت مراحل تھے وہ طے ہوئے ۔پھر موسم کا درمیانہ پن پھر سے لوٹے تو شہر کی زندگی بحال ہو اور رونقیں پھر سے شہر کے سر پر سہرا باندھیں اور اس کا سر چومیں۔میٹرو بس کی وجہ سے اب شہر میں ہنگامہ خیزی اور طوفان اور اس کی ٹریفک کی بلا خیزی نے دو چار دنوں ہی میں خاصی کمی کی ہے ۔اب تو موسم سرما دو ہاتھ پر ہے اور دو قدم دور ہے ۔