میں اپنے جیسے مڈل کلاس والوں کی بات کر رہاہوں ¾درمیانہ طبقہ یونہی حیران و پریشاں ہے اور رہے گا ¾ پھر کتنے ہی ان میں سے ہزاروں لاکھوں دنیا چھوڑ گئے ۔شاید ان کے دل میں امید ہو کہ ہماری آئندہ کی نسل خوشحال ہوگی مگر ان کو پتا بھی نہ ہوگا کہ ان کی آل اولاد ویسے کی ویسے ہی ہے ۔ ان کے ہاں تبدیلی تو نام کو بھی نہیں آئی۔ ہاں باہر گلی کوچے میں سڑکوں چوراہوں پر موسم بدلتے ہیں سڑکیں نئی بن جاتی ہیں لوگ نت نئے کپڑے پہنتے ہیں ٹی وی چینل نئے کھل رہے ہیں کیا کچھ ہے جو نیا نہیں ہوتا جاتا ہے ۔مگر اس درمیانہ طبقہ کی قسمت نہیں بدلتی ۔ یہ محروم و مجبور مقہور اور کہیں کہیں مردود بھی کر دیئے جاتے ہیں۔ عام زبان میں ان کےلئے سفید پوش کا لفظ بھی بولا جاتا ہے ۔ہمارے مسئلے ہمارے اپنے مسئلے ہیں ‘جن کے حل کےلئے ہم لوگ در بدر سرگرداں رہتے ہیں۔ان مسئلوں کو ہم نے حل کرنا ہے تو کرنا ہے وگرنہ گورے نہیں آئیں گے جو ہمارے مسائل کو چٹکی بجاتے حل کر یں گے ۔ پھر اندازہ یہ ہے کہ ہمارے مسائل جوں کے توں رہیں گے اور آنے والے زمانے میں بھی ہم لوگ یونہی پریشاں حال سر بہ گریباں خجل خوار جوتیاں چٹخاتے در بدر خورے پہ سر گھومتے گھامتے رہیں گے۔ کیونکہ اب تک ستر سالوں میں ہماری تقدیر نہ بدلی تو آگے کی امید رکھنا حماقت ہوگی ۔ غربت مکا¶ تحریکیں سٹارٹ ہوتی ہیں دھکا سٹارٹ سہی مگر آگے چل کر ختم ہو جاتی ہیں ۔پھراب تک ہماری سیاست کی گیم دیکھیں یہی ہوتا آیا ہے ۔ کیونکہ ہمارا مزاج ہے کہ جو آتا ہے اپنا الو سیدھا کرتا دوسرے کا الو ٹیڑھاکر کے چلا جاتا ہے ۔
ہمارے مسئلے ہمارے مسئلے ہیں اور ہماری اگلی نسل کے مسئلے ہیں ۔جو اس وقت ہمارے اوپر گزر رہی ہے وہ تو ہمارے ماں باپ پر بھی گزری تھی اور زیادہ تحقیق کریں تو ہمارے باپ دادا بھی اس قسم کی تکالیف سے گزرے ہیں کیونکہ ہم ایشیاءکے لوگ ہیں جن میں سے بیشتر ملک اور زیادہ تر آدمی روٹی پانی اور رہائش کی تکلیفات سہہ سہہ کر بر لب ِ گور ہو کر کیرم بورڈ کی گیٹی کی طرح زمین میں بنی پوٹ میں پل جاتے ہیں۔جو جو مسائل ہمارے باپ داد ا کو حاصل تھے اس زمانے میں تو موجودہ حکومت نہ تھی وہ تویہاں انگریزوں کی حکومت کی باتیں ہیں۔پھر اس کے بعد ہمارے والدین کی جوانی آئی اور وہ بھی اپنے بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں گزر گئی ۔ پھر جب ہم جوان ہوئے تو ہمیں وہی پریشانیاں ورثے میں ملیں۔پھر ہمارے بچے جو اس وقت ہر قسم کی ضرورت کے پورا ہوجانے کی فکر سے آزاد ہیں بڑے ہوں گے تب بھی ارضِ وطن پر جمہوریت کے حمایتی او رجمہوریت کے مخالفین کے ہاتھوں کوئی بہتر نظام نہیں آئے گا۔ وہی ڈھاک کے تین پات۔ وہی مسئلے ان کو مفت میں حاصل ہو جائیں گے۔ یہ تو میں عمومی بات کر رہا ہوں ۔ مگر ضروری نہیں جو مالدار ہے اس کی نسل بھی مالدار ہو اور جو نادارہیں وہ آگے چل کر غریب رہیں ‘ زمینیں جائیدادیں سنبھال کر رکھنے کےلئے تو نہیںہوتیں‘ یہ تو اپنی عزت بچانے کےلئے ہوتی ہیں ‘ جب سر پر مصیبت آن گرے تو بندہ جائیداد زمین کھیت کھلیاں مجبوری کے عالم میں پوری قیمت پر نہ سہی اونے پونے ہی بیچ کر اپنی عزت پر آتی ہوئی آنچ کو بجھا ڈالتا ہے ‘یوں کسی کے پاس جائیداد ساری عمر رہے ایسا تو کبھی نہ دیکھا نہ سنا۔
ہمارے والدین بجلی گیس کے بل کےلئے اور پانی تک کے بل کی ادائیگی کےلئے پریشانی کے عالم میں چھتوں کو گھورتے رہتے تھے ‘ پھر سو جاتے ‘مگر ان کی چارپائی کے قریب جا کر انکے چہرے سے چادر ہٹا¶ تو کھلی آنکھوں سے سوچتے ہوئے دکھائی دیتے ۔یہی آفات ہمیں بھی تو اس وقت لاحق ہیں کہ کون کون سے حساب میں خرچہ کریں ۔بل میں دیں توکچن کاکیا کریں گے کچن میں خرچہ ڈال دیں تو گھر کا دکان کا کرایہ کہاںسے نکلے گا‘ بچوں کے کپڑے بنائیں یا ان کو روٹی میسرکرنے کےلئے جیب ٹٹولیں گے‘سو طرح کے اخراجات ہیں ‘ تنخواہیں اور پنشن میں اس بار اضافہ نہیں کیا‘دوسری طرف چیزوں کے نرخوں میں چار سو گنا اضافہ کر دیا گیا ہے ‘ ہمارے وسائل اگر ہیں تو ان کو کام میں لانے کےلئے اربوں روپے چاہئیں یہ اتنی بڑی رقمیں کہاں سے آئیں گی‘ بات لمبی ہوگئی ہے ‘ اس پر بس کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں کوئلہ وافر مقدار میں موجود ہے ‘اتنا کہ اگر اس سے بجلی بنے تو آئندہ پچاس سال بھی ہمیں لوڈ شیڈنگ کا سامنا نہیں ہوگا بلکہ بجلی مفت ملے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا ‘ پھر ہم دوسرے ملکوں کو بھی یہ بجلی سپلائی کر سکتے ہیں‘مگر کیسے ہوگا کون کرے گا کب ہوگا یہ اصل سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کےلئے ہمارے طالب علم کا اتنا ذہن ہی نہیں کہ وہ پرچہ حل کر کے کامیاب ہو سکے‘اس کو تو بس امتحان دینے کا شوق ہے اور فیل ہونے کا چسکا ہے ۔