ٹیکنالوجی بھی قومی سلامتی کےلئے خطرہ ہو سکتی ہے‘ جس کی اَندھا دھند درآمد‘ استعمال کی اجازت بارے قومی سلامتی کے فیصلہ سازوں کو سوچنا پڑے گا کیونکہ جوہری صلاحیت رکھنے والے پاکستان کے دفاع پر اِس کی وجہ سے سمجھوتہ ممکن ہے‘ ٹیکنالوجی‘ قومی سلامتی اور خطرات کی نوعیت بارے سوالات رواں ہفتے منظرعام پر آنے والے چند حقائق کی روشنی میں اُٹھائے جا رہے ہیں اور اگرچہ یہ بحث ابھی پاکستان نہیں پہنچی لیکن سوشل میڈیا اور مغربی ذرائع ابلاغ کہیں واضح تو کہیں ڈھکے چھپے انداز میں عالمی جاسوسی کے لئے نت نئے حربوں کے بارے میں آگاہ کرتے آئے ہیں جن میں تازہ ترین اضافہ اور احاطہ ’ایپل ‘ نامی امریکی کمپنی کے سابق ملازم (ڈیوڈ شائر) نے اپنے مضمون ”انتہائی خفیہ آئی پوڈ کی کہانی “ کے عنوان سے کیا ہے اور اِسے امریکہ ہی کے اشاعتی ادارے جس نے اپنی خدمات کا بیشتر حصہ ’ایپل کمپنی‘ سے متعلق معلومات‘ تبصروں اور تجزئیات جاری کرنے کےلئے مخصوص کر رکھا ہے نے اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے‘ خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ 3 ماہ کے دوران امریکہ کی حکومت نے چین کی ایک کمپنی (ٹک ٹاک TikTok) پر جاسوسی کا الزام عائد کرکے اُس کی امریکہ میں خدمات پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا اور امریکہ کے سیاسی و عسکری حکام چین کی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر اپنی حکومت کے لئے جاسوسی اور کام کرنے جیسے الزامات عائد کرتی رہی ہیں تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ ایپل نامی امریکی کمپنی پر حکومت کےلئے ایک خفیہ آلہ تیار کرنے کا انکشاف ہوا ہے تو کیا دنیا کو وہی کچھ نہیں کرنا چاہئے جسے امریکہ اپنی قومی سلامتی کےلئے درست اور اپنا حق سمجھتا ہے؟
باالخصوص پاکستان کو ایپل کی مصنوعات کی درآمد اور اِن کے استعمال پر ’فی الفور پابندی‘ عائد کر دینی چاہئے کیونکہ یہ معاملہ ’قومی سلامتی‘ کا ہے‘ جان لیجئے کہ آئی پوڈ وائی فائی سے منسلک ہونے والا ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے موسیقی سنی جا سکتی ہے اور اِس میوزک پلیئر کو ایپل نے ابتدائی طور 2001ءمیں ’آئی ٹیون میوزک پلیئر‘ متعارف کروانے کے بعد فروخت کےلئے پیش کیا تھا‘ اب تک ایپل کمپنی 7 قسم کے ’آئی پوڈز‘ جاری کر چکی ہے جو ماضی کے مقابلے انتہائی جدید اور چھو کر کام کرنےوالی خصوصیات (ٹچ سکرین) کے ساتھ پیش کیا جا چکا ہے اور اسے کمپنی کی چند بہترین اور مقبول مصنوعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ امریکہ کا ’آئی پوڈ‘ کو جاسوسی کےلئے استعمال کرنے سے متعلق انکشاف رونگٹے کھڑے کرنےوالا ہے‘ ایپل کمپنی کی جانب سے ملازمت پر رکھے گئے پہلے چند سافٹ ویئر انجینئرز میں سے ایک ڈیوڈ شائر نے دعویٰ کیا کہ ایپل نے پندرہ سال قبل امریکی حکومت کےلئے ایک خاص قسم کا ”آئی پوڈ“ بنایا تھا‘ جس میں نصب سافٹ ویئر اور ہارڈویئر کے ذریعے جاسوسی کی جا سکتی تھی۔انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ منصوبے کو خفیہ رکھنے کےلئے صرف زبانی طور پر باتیں کی گئیں ‘ مضمون نگار ”خفیہ آئی پوڈ“ کے ذریعے کسی بھی ملک میں جوہری مواد کی کھوج لگائی جا سکتی تھی اور اِس کے ذریعے امریکی حکومت جوہری مواد کی نقل و حمل پر نظر رکھ سکتی تھی کہ اگر کوئی ملک اپنی جوہری تنصیبات کو خفیہ رکھے ہوئے ہے۔
تو اُن کی کھوج ہتھیلی میں سمائے جانےوالے ایک چھوٹے سے آلے کی مدد سے لگائی جا سکتی ہے‘ میوزک پلیئر میں نصب خاص ہارڈ وئرز سے ایسے فیچرز رکھے گئے جو اِس کے ارد گرد موجود جوہری مواد کا پتا لگا سکے اور خفیہ آئی پوڈ کی چھوٹی سی جسامت دیکھ کر کسی کو شبہ ہی نہیں ہوسکتا کہ کوئی اس کے ذریعے جاسوسی بھی کر رہا ہے کیونکہ آئی پوڈ میں موسیقی سے لطف اندوز ہونے کا آلہ ہے اور اِس سے ممکنہ جاسوسی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا! یہ بات اپنی جگہ تشویشناک ہے کہ اگر ایپل کے فونز‘ آئی پیڈز اُور آئی پوڈز میں جاسوسی کے ایسے آپشنز رکھے گئے ہوں کہ اِن کے استعمال کرنے والوں کے علم میں لائے بغیر بذریعہ انٹرنیٹ کسی بھی ملک میں اِن سے جاسوسی کی جاسکتی ہو تو یہ بات بھی زیادہ عجب نہیں ہوگی۔ فی الوقت امریکہ کی حکومت اور ایپل کمپنی اِس بارے میں خاموش ہے اور اُن کی خاموشی سے عیاں ہے کہ موبائل فون آلات و کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے جاسوسی کا سلسلہ اگر 2005ءمیں شروع کیا گیا تو یہ منصوبہ اب بھی جاری ہوگا اور غیرفوجی ٹیکنالوجی کے فوجی استعمال سے متعلق حساس معاملہ اسلامی جوہری پاکستان کےلئے بطور خاص توجہ طلب ہے کیونکہ کمپیوٹرز‘ موبائل آلات اُور جاسوسی کی دال میں کچھ کچھ نہیں بلکہ یہ تو پوری دال ہی کالی ہے!