اخبارات میں تصویروں کے ساتھ خبریں آرہی ہیں کہ خیبر پختونخوا کے ضلع اپر چترال میں تین یونین کو نسلوں کی 40ہزار آبادی نے اپنی مدد آپ کے تحت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر بو نی سے تحصیل ہیڈ کوار ٹر مستوج تک 32کلو میٹر سڑک کی توسیع اور پختگی کے منصو بے پر کا م شروع کر دیا ہے 20 سال پہلے 10کلو میٹر کچی سڑک بھی پہاڑی کو کاٹ کر مقامی آبادی نے اپنی مدد آپ کے تحت بنا ئی تھی کچی سڑک میں پہاڑ کا ٹنے کےلئے مشینری اور سڑک کی تعمیر میںاستعمال ہونے والا مخصوص میٹریل فراہم کر نا مشکل تھا لو گوں نے خود فراہم کیا پکی سڑک کےلئے مشینری اور دیگر مواد کے ساتھ اسفالٹ ( تارکول ) اور بھاری مشینری کی ضرورت ہے مقا می آبا دی نے چندے کے ذریعے اگلے 3سالوں میں 12ارب روپے جمع کرنےکا منصو بہ بنا یا ہے چندہ باہر سے نہیں آئےگا مقامی آبا دی مر غی ، انڈے ، بھیڑ بکر یاں اور گائے ‘بیل فروخت کر کے گھر گھر سے وسائل مہیا کرے گی عجیب اتفاق یہ ہے کہ 20سال پہلے بھی اس کام کے لئے آبا دی کو پرو فیسر اسما عیل ولی نے اکھٹا کیا تھا 20سال بعد ایک بار پھر آبادی کو اپنی مدد آپ کے ذریعے کام کے لئے وہی اکھٹا کر چکا ہے گریڈ 21کا یہ پرو فیسر کدال اور بیلچہ لیکر سب سے آگے ہو تا ہے‘سب سے پہلے کام پر آجا تا ہے سب سے آخر میں گھر جا تا ہے۔
انہوں نے پہلے کلو میٹر کو 20دیہات کے لوگوں میں تقسیم کیا ہر روز 400آ دمی کام پر آتے ہیں رضا کارانہ کام کرتے ہیں اپنا کھا نا اور پانی بھی گھر سے لا تے ہیں ایک غیر ملکی سیا ح نے پروفیسر اسماعیل ولی سے سوال کیا تم لو گوں نے انگریزی میں خوب صورت درخواست لکھ کر اخبار میں شائع کرو اکر حکومت کی توجہ حا صل کیو ں نہیںکی ؟ رضا کاروں کے سر براہ نے غیر ملکی سیاح کو اپنا بیلچہ دکھا تے ہوئے کہا کہ یہ ایسا اوزار ہے جو قلم اور کا غذ سے زیا دہ طا قتور ہے درخواستیں بہت دی گئیں ، سپاسنا مے بہت پڑھے گئے ،تقریریں بہت کی گئیں ، وفود بھی بھیجے گئے‘ ہڑتالیں بھی کرائی گئیں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا قیا م پاکستان کو 73سال بیت گئے کسی حکومت نے ہمارے لئے ایک کلو میٹر پکی سڑک نہیں بنا ئی حا لانکہ مستوج اتنا اہم علا قہ ہے کہ انگریزوں نے 1904ءمیں یہاں ٹیلیفون لائن بچھا یا ، تار گھر قائم کیا ، مستوج کے لئے جھو لا پل تعمیر کرا یا اُس زما نے میں گدھوں اور خچروں پر سیمنٹ اور لوہا یہاں پہنچا یا گیا تھا بنگال سیپر ز اینڈ مائنرز (سفر مینا ) کو یہاں کام پر لگا یا گیا تھا 100سال بعد دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر مستوج کی حالت نہیں بدلی۔
اسلا می تعلیما ت میں اپنی مدد آپ کا تصور بہت پختہ ہے ‘ پرو فیسر اسما عیل ولی کے سامنے مستوج ،لاسپور ، یا ر خون (MLY) سے پرو گرام کے مطا بق 3سالوں میں 32کلو میٹر پختہ سڑک ا سفالٹ پلانٹ کے ذریعے اپنی مدد آپ کے تحت تیا ر کرنا ہے اگریہ منصوبہ کامیاب رہا تو یہ دنیا کا آٹھوا ںعجوبہ ہو گا یہ وہ سڑک ہے جس کا پہلا منصو بہ 1988ءمیں آیا ‘ مگر کچھ برآمد نہ ہوا دوسرا منصو بہ 2006میں آیا ‘ نتیجہ کچھ نہیں نکلا‘ تیسرا منصوبہ2017میں ایکنک (ECNEC) سے منظور ہوکر آیا راستے میں گم ہوا ”تنگ آمد بکار آمد “ لو گ خو د میدان میں آگئے اپنا جھنڈا پرو فیسر اسما عیل ولی کے ہاتھ میں دیدیا سالوں کا سفر دنوں کے حساب سے شروع ہوا اس سفر کے رضا کار منزل پر پہنچ کر دم لینگے کہ جس کام کا بیڑ انہوںنے اٹھایا ہواہے وہ ان کی اپنی بھلائی کا ہے ۔دیکھا جائے تو اپنی مدد آپ کے تحت بڑے بڑے منصوبے پروان چڑھ سکتے ہیں تاہم اس کیلئے منظم عوامی قوت کی ضرورت ہے جس سے استفادہ کرنے کیلئے ایسی ہی شخصیات اگر ملک گیر سطح پر موجود ہوں جس طرح پروفیسر اسماعیل ولی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ در درازدیہات میں سڑکوں اور تعلیم کے مسائل کو مقامی سطح پر اپنی مدد آپ کے تحت حل کیا جائے۔ ایسے میں منظم تنظیموں کا وجود بھی ضروری ہے جو عوام میں یہ شعور بیدارکریںکہ حکومتی وسائل بھی ان ہی کیلئے ہیں تاہم اس کا انتظار کرنے کی بجائے اگر اپنی مدد آپ کے تحت منصوبوں کا آغا ز کیا جائے تو حکومتی ادارے بھی مدد کو پہنچ جائیں گے اور مل جل کر مسائل حل ہوں گے۔ اس ضمن میں اپر چترال کے باسیوںنے پورے ملک کیلئے ایک مثال قائم کر دی ہے۔