برطانیہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں مجموعی طور پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ناتجربہ کاری اور موقع کی مناسبت سے حکمت عملی وضع کرنے کی صلاحیت کا فقدان سامنے آیا ہے جبکہ عالمی کرکٹ بنا منصوبہ بندی کھیلنا فاتحانہ نہیں ہوتا۔ یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ کرکٹ کتابوں میں درج اسباق اور طریقوں سے نہیں بلکہ میدان میں لمحہ بہ لمحہ بدلنے والی صورتحال کو مدنظر کر کیا جاتا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں کرکٹ کے فیصلہ سازوں کو دیکھنا ہوگا کہ اُن کی مدمقابل کوئی ٹیم نہیں بلکہ تاریخ کھڑی ہے اور تاریخ کے اوراق پر درج ہے کہ 1962ءمیں جاوید برکی کی قیادت میں برطانیہ کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم سب سے کمزور تھی جسے پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں چار صفر سے شکست ہوئی تھی۔ تجزیہ کاروں کی ایک تعداد 1978ءمیں وسیم باری کی قیادت میں برطانیہ کا دورہ کرنے والی ٹیم کو کمزور ترین قرار دیتی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ کرکٹ کا کھیل اِس قدر توانا ہے کہ اِس کا سامنا کرنے والوں سے باوجود خواہش و کوشش بھی اپنی کمزوریاں چھپائی نہیں جا سکتیں اور یہی خوبصورتی کرکٹ کو زیادہ دلکش و دلچسپ بنا دیتی ہے لیکن سب منفی بھی نہیں بلکہ کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ پاکستان بمقابلہ برطانیہ ہوئی تمام ٹیسٹ سیریز کے مقابلوں اور اُن کے نتائج کو گوگل (انٹرنیٹ پر تلاش) کرنے سے اِس نتیجے پر باآسانی پہنچا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کا موجودہ دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کمزور یا ناتجربہ کاری میں ماضی سے زیادہ نہیں۔ خاص کر پاکستان کی بیٹنگ لائن قابل بھروسہ نہ سہی لیکن جاندار ہے اور اِس میں تینوں فارمیٹس کے کامیاب بلے باز بابراعظم موجود ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ یہ وہی ٹیم ہے جس کی کپتانی ٹرپل سنچری میکر اور ٹیسٹ میچوں میں چھ ہزار رنز بنانے والے اظہر علی کر رہے ہیں۔ تو کیا ایسی صورت میں قومی ٹیم کو ناتجربہ کار یا کمزور کہا جاسکتا ہے؟
یاسر کے بغیر پاکستان کا باﺅلنگ اٹیک کسی شمار میں نہیں رہتا اور پاکستانی باﺅلنگ میں 200سے زیادہ وکٹوں کے مالک یاسر شاہ سب سے نمایاں کھلاڑی ہیں۔ برطانیہ کا بدلتے موسموں اور کھیل کے میدانوں سے مطابقت رکھنے والے مدھم رفتار عباس بھی ٹیسٹ کرکٹ میں 100وکٹوں کے قریب پہنچنے والے ہیں اور اِن دونوں کی موجودگی میں شاہین آفریدی اور نسیم شاہ سے توقعات وابستہ کرنا شائقین کے لئے اُمید کی کرن ہے۔ شاہین اور نسیم کی کارکردگی سے زیادہ ان کی کم عمری اور روشن مستقبل کے چرچے ہو رہے ہیں اور اندیشہ ہے کہ کہیں وہ اپنی تعریف کے سیلاب میں بہہ ہی نہ جائیں۔ تیسرے ٹیسٹ کے دوسرے دن باﺅلنگ اٹیک کی کہانی ختم ہوچکی تھی کیونکہ اس نے برطانیہ کو پہلی اننگز میں ہی اتنا بڑا سکور کروا دیا کہ اس کے دباو¿ تلے دب کر پاکستانی ٹیم کو ”فالو آن“ پر مجبور ہونا پڑا۔ برطانیہ کے خلاف موجودہ سیریز میں اگر پاکستانی باﺅلرز کو دوسری اننگز میں باﺅلنگ نہ کرنی پڑی تو وہ مجموعی طور پر برطانیہ کی صرف 29وکٹیں حاصل کر پائے ہیں جن میں صرف اکیلے یاسر شاہ کی گیارہ وکٹیں شامل ہیں۔ عباس اور شاہین آفریدی کے حصے میں صرف پانچ پانچ وکٹیں آئی ہیں اور نسیم شاہ کا غیرمعمولی ٹیلنٹ انہیں صرف تین وکٹیں دلوا سکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کا یہ باﺅلنگ اٹیک برطانیہ کی ٹیم کو پوری سیریز میں صرف ایک مرتبہ ہی آل آو¿ٹ کرسکا ہے جبکہ دوسرے ٹیسٹ کا بیشتر حصہ بارش کی نذر ہوا تھا۔
برطانیہ کے باﺅلرز کے مقابلے پاکستانی باﺅلنگ اٹیک بہت کم میچوں میں یقینی کامیابی یا وکٹیں حاصل کر پایا ہے اور اس کا کسی طور بھی موازنہ جیمز اینڈرسن اور سٹیورٹ براڈ سے نہیں کیا جاسکتا۔ جاری سیریز میں کپتان اظہر اور ہیڈکوچ مصباح الحق نے شاہین آفریدی اور نسیم شاہ پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا۔ کرکٹ کے تجزیہ کار وںکا خیال ہے کہ دوسرے ٹیسٹ کے بعد کم از کم ان میں سے ایک باﺅلر کو ڈراپ کر کے کسی دوسرے باﺅلر کو لایا جانا چاہئے تھا۔ پاکستان کے پاس سولہ یا سترہ کھلاڑیوں کے بجائے اُنتیس رکنی سکواڈ موجود ہے اور اس سکواڈ میں شامل وہاب ریاض‘ سہیل خان اور عمران خان جیسے سینیئر کی شکل میں مصباح الحق کے پاس آپشنز موجود ہیں کہ وہ تیسرے ٹیسٹ میں ان میں سے کسی ایک کو شامل کر کے باﺅلنگ اٹیک کو نئی قوت دے سکتے تھے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان اپنے میزبان برطانیہ پر حاوی ہو سکتا۔ پاکستان کے کرکٹ شائقین میں مایوسی پائی جاتی ہے کہ اُنہیں صرف اچھا کھیل ہی نہیں بلکہ پاکستان کی کامیابی کی صورت ’جیت کا جشن‘ بھی منانا ہے۔ اُمید ہے کہ قومی ٹیم سے اچھی کارکردگی کی توقعات جو کہ ٹیسٹ میچوں میں تو نہیں لیکن ون ڈے سیریز میں ضرور پوری ہوں گی۔