کورونالیبارٹریوں کی تکنیکی جائزہ رپورٹ

 خیبرپختونخوا کے مختلف ڈویژنل صدر مقامات میں محکمہ صحت خیبرپختونخوا،نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد اور عالمی ادارہ صحت کے اشتراک سے کورونا کی تشخیص کے سلسلے میں قائم ہونے والی سولہ لیبارٹریوں کی کارکردگی کا عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق تکنیکی جائزہ لیاگیاہے۔واضح رہے کہ اس تکنیکی جائزے میں بارہ سرکاری اور پانچ نجی لیبارٹریوں کاجائزہ لیاگیاہے۔سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ گزشتہ دنوں خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پشاور کے زیر اہتمام منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی تقریب میں پیش کی گئی جس کے مہمان خصوصی سیکرٹری صحت خیبرپختونخوا سید امتیاز حسین شاہ تھے جب کہ اس موقع پر وائس چانسلر کے ایم یو پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالحق،پاکستان کے لئے عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر پلیتھا ماہی پیلا ،ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسزخیبرپختونخوا ڈاکٹر نیاز،رجسٹرار کے ایم یو پروفیسرڈاکٹر محمد سلیم گنڈا پور،انچارج ایمرجنسی پروگرام عالمی ادارہ صحت ڈاکٹر مائیکل لوک ویا، ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مقصودعلی،ڈاکٹر شاہین آفریدی، ڈاکٹر امجد محبوب،ڈاکٹر آصف علی اوردیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے۔ تقریب سے سیکرٹری ہیلتھ سید امتیاز حسین شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دوماہ کے مختصر عرصے میں صوبے کے طول وعرض میں 16پبلک ہیلتھ لیبارٹریوں کا قیام ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس پر کے ایم یو اور محکمہ صحت کی متعلقہ ٹیم قابل مبارک باد ہے‘ انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد کورونا ٹیسٹوں کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ محکمہ صحت، عالمی ادارہ صحت اور کے ایم یو نے کورونا کے خلاف مل کر جو جدوجہد شروع کی تھی اس کے اثرات صوبے میں ٹیسٹوں کی تعداد یومیہ 8000تک ہونے والے اضافے کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں‘پاکستان کے لئے عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر پلیتھا ماہی پیلا نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کے ایم یوپشاور نے کورونا وباءکے خلاف پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری اور پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے پلیٹ فارم سے فرنٹ لائن پر جو کردار ادا کیا ہے وہ ناقابل فراموش اور قابل ستائش ہے‘انہوں نے کہا کہ کورونا آ¶ٹ بریک کے خلاف حکومت پاکستان،خیبر پختونخوا حکومت اور خاص کر محکمہ صحت اور کے ایم یو نے جو بروقت ردعمل دیا یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس وباءسے یہاں کم سے کم جانی نقصان ہوا۔انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ کی سہولیات کی عدم موجودگی کی صورت میں کورونا سے ہونے والا نقصان کئی گنا بڑھ سکتا تھا لیکن صوبے کی لیبارٹریاں چونکہ اس وباءسے نمٹنے کے لئے پہلے سے تیار تھیں اس لئے کورونا کی تشخیص اور صوبے میں اس کے بڑھتے ہوئے کیسز کی روک تھام میں کافی مدد ملی کے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹرضیاءالحق نے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کے ایم یو ریفرنس لیبارٹری اور یہاں چار ماہ کے دوران تین شفٹوں میں کام کرنے والے سٹاف کی کارکردگی پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چار ماہ کے دوران جب صوبے اور ملک کے تمام ادارے بند تھے تو ان نامساعد حالات میں بھی کے ایم یو کا سٹاف دن رات ایک کر کے کورونا کے ٹیسٹوں میں مصروف تھا جس کے دوران بعض سٹاف ممبران کو رونا سے خود بھی متاثر ہوئے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور آج یہ ان کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ صوبے میں نہ صرف کورونا کا زور ٹوٹ چکا ہے بلکہ دو ماہ کے دوران شمال سے جنوب تک صوبے میں سولہ نئی لیبارٹریاں بھی قائم ہو چکی ہیں‘انہوں نے کہا کہ کے ایم یو عنقریب صوبے کے مختلف شہروں میں کمرشل بنیادوں پر لیبارٹریاں بنائے گی متذکرہ تکنیکی جائزہ رپورٹ کی تیاری WHO لیبارٹری اسسمنٹ ٹول (LAT) استعمال کیا گیا ہے جس کے ذریعے لیبارٹری کی کارکردگی اور وہاں دستیاب جدید سہولیات کاسائنسی بنیادوں پر جائزہ لیاجاتاہے‘یہ تکنیکی ٹیم ڈاکٹر عظمیٰ بشیرڈبلیو ایچ او کنٹری آفس پاکستان،ڈاکٹر محمد مسرور عالم لیبارٹری سائنٹسٹ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ، اسلام آباد،ڈاکٹر نادرا جدون سینئر سائنٹفک آفیسر پبلک ہیلتھ لیبارٹریز ڈویژن قومی ادارہ صحت، اسلام آباد،کنول گل بایومیڈیکل انجینئر، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ، اسلام آباد،ڈاکٹر آصف علی ایڈیشنل ڈائریکٹر، کے پی ایچ آر ایل، پی ایچ ایل کنسلٹنٹ لیبارٹری ٹیم کے پی محکمہ صحت اور ڈاکٹر جاوید محمداسسٹنٹ پروفیسر مائکروبیالوجی، صوابی یونیورسٹی ، بایوسیفٹی ماہر لیبارٹری ٹیم کے پی محکمہ صحت خیبرپختونخوا پر مشتمل تھی۔

اس تکنیکی جائزہ ٹیم نے صوبے کے جن ہسپتالوں کی لیبارٹریوں کا جائزہ لیا اور جو اس رپورٹ کا حصہ ہیں ان میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور،حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور، ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد،فرنٹیئر میڈیکل کالج ایبٹ آباد،مردان میڈیکل کمپلیکس، مردان، خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور، رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پشاور، نارتھ ویسٹ جنرل مالیکیولر اور پبلک ہیلتھ لیبارٹری ، پشاور،مفتی محمود اسپتال، ڈی آئی خان،خلیفہ گل نواز ہسپتال بنوں،انور لیب سوات، سیدو شریف ٹیچنگ ہسپتال سوات،ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال تیمرگرہ،باچا خان میڈیکل کمپلیکس صوابی،پشاور میڈیکل کالج پشاور اورڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کوہاٹ شامل ہیں۔متذکرہ تکنیکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختون خو امیں کوویڈ۔19 کا پہلا واقعہ 12 مارچ 2020 کو طورخم بارڈر سے سامنے آیا تھا اور تیزی سے صوبے کے بیشتر اضلاع میں پھیل گیا تھا۔اس رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ کوویڈ 19 سے ہنگامی طور پر نمٹنے کے لئے ایسی جدید لیبارٹریوں کاہونا ضروری قراردیا گیا ہے جن میں جانچ پڑتال کی تمام جملہ صلاحیتیں وسیع پیمانے پر دستیاب ہو ں‘ کوویڈ 19 ٹیسٹوں کی خدمات کو موثر بنانے کےلئے محکمہ صحت نے ایک واضح حکمت عملی کے تحت اپریل 2020 میں ایک تکنیکی لیبارٹری ٹیم کو صوبے کے تمام اضلاع میں پبلک ہیلتھ لیبارٹریوں کا ایک جامع نیٹ ورک بنانے کا ٹاسک سونپا گیا۔اس سلسلے میںڈبلیو ایچ او اور NIH کے تکنیکی تعاون سے کووڈ-19 کی تشخیصی لیبارٹریوں کے قیام کے لئے ایک عبوری خاکہ تیار کیا گیا‘ اس دستاویز میں 3 مراحل پرمشتمل باضابطہ خاکے کی وضاحت کی گئی ہے ، لیب ٹیم کے پی نے سرکاری اور نجی شعبے میں 17 لیبارٹریوں کی تشخیص اور آن سائٹ تکنیکی مدد کے لئے صوبے کے طول وعرض کابڑے پیمانے پر سفر کیا ، اس عمل میں صحت عامہ کے لیبارٹری سائٹس کی شناخت، انفراسٹرکچر میپنگ، آلات کی تنصیب، کووڈ-19 عملے کی تربیت اور باضابطہ اجازت کے عمل کے ذریعے ان کی رہنمائی شامل تھی۔ 4 ماہ (7 اپریل تا 5 جولائی 2020) کی مدت میں 14 لیبارٹریاں قائم کی گئیں جنہیں عارضی طور پر صوبے میں کووڈ-19 کی تشخیص کا اختیار دیا گیا۔لیبارٹری ٹیم خیبر پختونخوا نے ڈبلیو ایچ او اور این آئی ایچ کو قومی اور بین الاقوامی لیبارٹری کے بین الاقوامی معیار کے مطابق نئی قائم شدہ لیبارٹریوں کے بیرونی تکنیکی جائزوں کےلئے مدعو کیا۔ ان لیبارٹریوں کی کارکردگی کا سائنٹفک بنیادوں پر جائزہ لینے کےلئے عالمی ادارہ صحت کے Laboratory Assessment Tool (LAT) استعمال کیاگیا۔جائزے کا کام عالمی ادارہ صحت اور این آئی ایچ اسلام آباد کی مشترکہ ٹیم نے آزادانہ طور پر انجام دیاجبکہ محکمہ صحت کی لیب ٹیم ان کی مدد کی اور رہنمائی کے لئے ان کے ہمراہ رہی۔ بیس لائن تشخیص کے پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر 16 لیبارٹریاں (سرکاری شعبے میں 11 اور نجی شعبے میں 5) شامل تھیں‘اس رپورٹ کی تیاری تک 14 لیبارٹریوں میں کل 167,109ٹیسٹ کئے جا چکے تھے جن میں98000 یعنی کل ٹیسٹوں کا 59فیصدکے ایم یو پبلک ہیلتھ ریفرنس لیب میں کئے گئے ہیں جب کہ باقی ماندہ ٹیسٹ جو کل ٹیسٹوں کا 41فیصد بنتے ہیں دیگر لیبارٹریوں میں انجام دیئے گئے ہیں مزید یہ کہ 92 فیصد سے زیادہ ٹیسٹ پبلک سیکٹر لیبارٹریوں جب کہ محض 8 فیصد پرائیویٹ سیکٹر میں کئے گئے ہیں۔

 جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں کے ایم یو اور محکمہ صحت نے مل کر کورونا وباءکا کس پامردی اور استقامت سے مقابلہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کے ایم یوپی ایچ آر ایل کی موجودہ صلاحیت تقریباً 2000 ٹیسٹ / دن اور سارے صوبے میں سرکاری اور نجی شعبے کی مجاز لیبارٹریوں کی تشخیص کی کل ممکنہ صلاحیت 8000 ٹیسٹ فی یومیہ تک پہنچ چکی ہے۔یہ ایک قابل ذکر کامیابی ہے جو محکمہ صحت کی براہ راست انتظامی نگرانی اور تکنیکی معاونت کے سبب حاصل ہوئی ہے۔ نجی شعبے کی رپورٹنگ میں کچھ چیلنجوں کے باوجودپبلک سیکٹرلیبارٹریوں میںتحریری اور الیکٹرانک چینلز کے ذریعے ڈیٹا کی فوری اور بروقت ترسیل کے مربوط نظام قائم ہوچکے ہیں جن کے حوصلہ نتائج سامنے آئے ہیں ۔ان سہولیات سے صوبے کی عام آبادی کوکافی فائدہ ہوا ہے اور اب انہیں کورونا ٹیسٹوں کے لئے دوردراز مقامات کے دوروں سے نجات مل گئی ہے جس سے ان کے اخراجات میں بھی نمایاں کمی آئی ہے اور اب انہیں اپنے قریب ترین مقام پر اعلیٰ معیار کی تشخیصی سہولیات بھی دستیاب ہوگئی ہیں‘اس کامیابی کا سہرا ویسے تو صوبائی حکومت کے سر ہے لیکن محکمہ صحت اور کے ایم یو کے اشتراک نیز عالمی ادارہ صحت او راین آئی ایچ کے تعاون سے محکمہ صحت کی تکنیکی ٹیم نے ان لیبارٹریوں کے قیام اور فعالیت میں جو کردار ادا کیا ہے وہ یقیناً قابل داد ہے،بیرونی تکنیکی ٹیم نے ٹول اور آن سائٹ تشخیص سے حاصل کردہ نتائج کا تجزیہ کیا ہے جسے فیصلہ سازوں اورلیبارٹریوں میں عمل درآمد کرنے والے ماہرین کے لئے الگ الگ طور پر پیش کیا گیا ہے‘ سرکاری اور نجی شعبے کی لیبارٹریوں کے لئے مجموعی طور پر اسکور بالترتیب 55فیصدسے 85فیصداور 77 فیصدسے 89فیصد رہا ہے ‘جبکہ کوویڈ -19 مالیکیولر ٹیسٹنگ کی صلاحیتیں بالترتیب 55 فیصد سے 95فیصداور 83فیصدسے 95فیصدتک تھیں‘ زیر بحث رپورٹ کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ کورونا کیسز میں کمی کے تناظر میں کوویڈ۔19 کی تشخیص کےلئے قائم کی گئیں لیبارٹریوں میں مزید سرمایہ کاری یعنی اعلیٰ تربیت یافتہ سٹاف اور جدید ٹیکنالوجی کے حامل تشخیصی آلات کی فراہمی کے ذریعے دیگر متعلقہ امراض کی نشان دہی اور تشخیص کا فائدہ بھی اٹھانا چاہئے ،یعنی دیگر متعدی بیماریوں کی تشخیص کوکووڈ19 لیبارٹریوں کے ساتھ مستقبل میں منسلک کرکے مستقل طور پرضم کیا جاسکتا ہے۔ضلعی لیبارٹریوں کوصوبائی سطح پر قائم کے ایم یو پبلک ہیلتھ لیب کے ساتھ منسلک اور مربوط کرنے کی اس وقت بہت اہمیت ہے، اس کے علاوہ ڈویژنل سطح پر دو سے تین ذیلی لیبارٹریوں کے ایک جامع نیٹ ورک کے قیام سے بھی پبلک ہیلتھ کے شعبے میں درپیش مختلف چیلنجز کی تفہیم اور تدارک میں مدد مل سکتی ہے ، صوبے میں قائم کی گئیں زیر بحث پبلک ہیلتھ لیبارٹریوں کو اگر مستقل بنیادوں پر انسانی اور مالی وسائل فراہم کئے جائیں اور ان کے لئے سالانہ بجٹ میں باقاعدہ فنڈ مختص کیا جائے تو اس سے
صوبے میں متعددی امراض کی روک تھام اور سدباب میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ ان لیبارٹریوں کا سب سے قیمتی اثاثہ قابل اور تربیت یافتہ عملہ ہے جن کے مسائل کے ساتھ ساتھ ان کی صحت اور بائیوسیفٹی پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔اسی طرح ان لیبارٹریوں کے معیار کابین الاقوامی معیارات کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے۔