میرا پیغام محبت ہے

 ایک خبر نظر سے گزری خبر میں قو می اسمبلی کی کاروائی کا خلا صہ ہے جس میں ایوان کے دونوں جا نب سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھا لنے کے واقعات کا تذکرہ ہے اور یہ ایک دن کی بات نہیں ہر روز ایسا ہی ہو تا ہے اچھا پارلیمنٹرین اس کو سمجھا جا تاہے جو دوسروں کے عیب جا نتا ہو اور مزے لے لے کر ان کا ذکر بھی کر سکتا ہو ‘ پارلیمنٹ کو نفرت کے اظہار کا پلیٹ فارم بنا یا گیا ہے اور یہ صرف پارلیمنٹ پر منحصر نہیں زندگی کے ہر شعبے میں یہی چلن عام ہے ‘ خصو صاً سوشل میڈیا ٹو یٹر اور فیس بک اس سے بھرا ہوا ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا نفرتوں کے اس کاروبار نے پاکستانی معا شرے کے کسی بھی طبقے کو نہیں بخشا‘پریس کلب کی ایک غیر رسمی نشست میں اس نفرت انگیزی کے حوالے سے نکتہ اٹھا یا گیا احباب نے کہا یہ انتخا بی سیا ست کی رقا بتیں ہیں جو معا شرے کے تمام طبقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں ہم نے عرض کیا انتخا بی سیا ست امریکہ ، بر طا نیہ اور بھا رت میں بھی ہو تی ہے وہاں انتخا بات سے ذاتی دشمنی اور دائمی رقا بت پیدا نہیں ہوتی ایک دوست نے کہا جمہوری اور غیر جمہوری قوتوںکی با ہمی منا قشت سے الزامات کی سیا ست جنم لیتی ہے۔

 ہم نے کہا یہ بھی پورا سچ نہیں ہے صحا فیوں میں ایک گرگ باراں دیدہ اور گرم وسرد چشیدہ بزرگ بیٹھا تھا ان کی نظر اخبار پر مر کوز تھی مگر ان کے کان ہماری گفتگو کا لطف اٹھا رہے تھے انہوں نے اخبار کو میز پر رکھا اور سب کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بعد بولا میں نے اخبار کے لئے پہلی خبر 1958ءمیں بھیجی تھی 62سال اس دشت کی سیا حی میں گزرے ہیں میںنے اپنی آنکھوں سے یہی منظر 1958ءمیں دیکھا تھا پھر بزر گوں سے سُنا کہ معاشرے میں نفرتوں کا گودام سرد جنگ کی وجہ سے بھر گیا تھا 1951اور 1953میں جو بیج کاشت ہوئے تھے ان کی فصل نصف صدی گر نے کے بعد پک کر تیار ہو گئی ہے جب ہماری قیادت نے سویت یونین کے مقا بلے میں امریکی کیمپ میں جا نے کو تر جیح دی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں عالمی طاقتوں نے پاکستان کواپنی خفیہ ایجنسیوں کا میدان جنگ بنا لیا دونوں ایجنسیوں نے دیکھا کہ پاکستان میں برٹش انڈیا کی چھوڑی ہوئی بیورو کریسی بہت طاقتور ہے دونوں نے اپنے مفادات کے لئے بیورو کریسی کو نشا نہ بنا یا بیورو کریسی کے خلا ف با قاعدہ مہم چلا ئی گئی ساتھ ساتھ سیا ستدانوں کی کر دار کشی بھی شروع ہوئی 1958 مخالفین کی کردار کشی کے حوالے سے بنیادی اہمیت کاحامل ہے ۔

جہاں یہ روش عام ہوئی ‘ فیلڈ مارشل ایوب کے دور میں دنیائے سیاست اور طاقت میں جگہ بنانے کیلئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور مخالف کی کردارکشی عروج پر رہی اور حیرت انگیز طور پر ان اقدامات کو عوامی قبولیت بھی ملتی رہی کیونکہ پروپیگنڈ ا اگر موثر انداز میں اور بھر پور کیا جائے تو وہ ضرور اثر دکھاتا ہے ۔اس کے بعد حکومتیں آتی رہیں اور مختلف الزامات میں ان کا خاتمہ بھی ہوتا رہا ، جو بھی حکومت ختم ہوتی عوام اس کو سراہتے کیونکہ جب حکومت کو چلتا کیا جاتا تو منظم انداز میں ان کے خلاف الزمات کا سلسلہ شروع ہوتا اور عوام کو شیشے میں اتارا جاتا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت توجہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی سے زیادہ صاف ستھری اصولوں پر مبنی سیاست کو متعارف کرانے اور عوام پر مسلط مختلف قسم کے اندھیروں کو ختم کرنے کا ہے جس میں مہنگائی ، بے روزگاری اور ناخواندگی سر فہرست ہیں، اگر ان مسائل کی طرف توجہ دی جائے جس نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کا خاتمہ ہو اور ایک دوسرے کے خلاف الزام اور نفرتوں کو پھیلانے کی بجائے یہ کہنے کا وقت ہے کہ”میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے“