پشاور: یادش بخیر

حرمت والے مہینے کا آغاز ہوتے ہی‘ نسبتاً زیادہ خطرہ ناقابل فہم بھی ہے۔ اندیشوں کی بنیاد پر کھینچے گئے نقشے کے مطابق خصوصی حالات سے نمٹنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہر سال ’حفاظتی حکمت عملی (سیکورٹی پلان)‘ تشکیل دیتے ہیں‘ رواں برس محرم الحرام (چودہ سو بیالیس ہجری کے لئے) اَندرون شہر کی حدود میں 43 گن پوائنٹس اور 63 پلگنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں جہاں پولیس کے تربیت یافتہ ماہر نشانہ بازوں کو خودکار ہتھیاروں سے لیس کر کے تعینات کر دیا گیا ہے۔ عمومی پولیس اہلکاروں کے علاوہ ’فوری ردعمل کا مظاہرہ کرنے والا دستہ انسداد دہشت گردی کا دستہ خواتین پولیس اہکار‘ بم ڈسپوزل یونٹ‘ سٹی پیٹرولنگ فورس اور ڈسٹرکٹ سیکورٹی برانچ کے چاک و چوبند دستے طلب کر لئے گئے ہیں۔ ریسکیو اہلکار‘ طبی عملہ اُور دیگر علاقوں سے میونسپل سروسز فراہم کرنے والے ملازمین بھی ’محرم ڈیوٹی‘ کا حصہ ہیں۔ جاری محرم الحرام کے پہلے عشرے کے آخری 4 روز (سات سے دس محرم) ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی ”انتہائی اہم“ قرار دیئے گئے ہیں‘ جن میں نویں اور دسویں محرم کی مناسبت سے منعقد ہونے والے مذہبی اجتماعات‘ مجالس‘ ماتمی جلوسوں اور اِن میں شرکت کرنے والوں کی نقل و حرکت محفوظ بنانے کے لئے مرتب کی گئی حفاظتی حکمت عملی میں کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں اور ڈرون طیاروں سے نگرانی کی جائے گی جبکہ نویں اور دسویں دن پشاور کی فضائی نگرانی کے لئے ہیلی کاپٹر کا استعمال بھی کیا جائے گا۔

 قصہ مختصر کوئی ایسی ایجاد اور کوئی ایسا ہتھیار نہیں جس کو تیار اور ذخیرہ نہ کر لیا گیا ہو جبکہ بلندوبالا عمارتوں پر بیٹھ کر نگرانی اور تہہ در تہہ نگرانوں کی نگرانی کرنے کے باوجود سیکورٹی کو لاحق خطرات کم نہیں ہوتے بلکہ اِن سے پیدا ہونے والا خوف و ہراس اپنی جگہ آئندہ کئی ماہ تک اہل پشاور کو محسوس ہوتا رہے گا! تاثر یہی ہے کہ جیسے محکمہ¿ پولیس نے محرم الحرام کو ”سالانہ تربیتی جنگی مشق“ کرنے کے لئے منتخب کر لیا ہو اور اِس دوران جس امن و امان کو برقرار رکھنے کے وعدے پر وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کا امن و امان کی بحالی سے تعلق نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سب دکھاوا چند روزہ کارکردگی ہے اور جس پائیدار امن کے قیام کے لئے مختلف مکاتب فکر کے درمیان محبت‘ بھائی چارے‘ برداشت اور رواداری کا فروغ جس انداز سے ہونا چاہئے اُس کے لئے بہت کم کوشش دیکھنے میں آتی ہیں۔ آخر ایسا کیا ہے جس سے خطرہ ہے اور وہ خطرہ سالہاسال سے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی کم کیوں نہیں ہو رہا؟ محرم الحرام ہو یا کوئی بھی دوسرا مہینہ‘ ضرورت اِس بات کی ہے کہ امن و امان کو لاحق مستقل خطرات کا مستقل بنیادوں پر حل تلاش کیا جائے۔ محرم الحرام میں سیکورٹی کے نام پر نمائشی اقدامات و انتظامات اور بھاری اخراجات اپنی جگہ اور اِن کی وجہ سے اندرون و شہر سے ملحقہ علاقوں میں رہنے والے عام آدمی کی مشکلات توجہ طلب ہیں۔ پہلے ہی کورونا وبا کے سبب پشاور کا معاشی و کاروباری ڈھانچہ متاثر ہے اور اگر اِسے سہارا نہیں دیا جا سکتا تو کم از کم ایسے غیرضروری اقدامات سے تو گریز ممکن ہے‘ جو حالات کو معمول پر لانے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

پشاور پولیس کے مطابق محرم الحرام کے آغاز سے قبل 1130 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جبکہ ہوٹلوں‘ سرائے خانوں اور گیسٹ ہاو¿سز میں بنا شناختی دستاویزات مقیم ڈیڑھ ہزار افراد بھی زیرتفتیش و حراست ہیں لیکن نگرانی کا عمل تو سارا سال جاری رہنا چاہئے بالخصوص اندرون شہر کے گلی کوچوں میں کرائے کے مکانات کا تناسب بڑھ رہا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر خاطرخواہ توجہ مرکوز نہیں۔ پولیس تھانہ جات کی حدود میں خانہ شماری اور اِن کے کوائف سائنسی بنیادوں پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر محرم الحرام کے موقع پر بیرون کوہاٹی گیٹ نگرانی کا مرکز (کمانڈ سنٹر)‘ تھانہ کابلی (خان رازق شہید) میں کنٹرول سنٹر اور نگرانی کی پانچ دیگر مراکز (سب کمانڈ پوسٹس) قائم ہو سکتی ہیں تو اِن کی ترتیب و فعالیت کو چند روزہ عمل کی حد تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ اِنہیں اگر ایک سال مستقل بنیادوں پر قائم رکھا جائے اور اِس دوران پشاور کے ہر گھر میں مقیم افراد کے کوائف اور اُن کی نادرا ریکارڈ سے چھان بین مکمل کرلی جائے تو آئندہ برس محرم الحرام کے لئے غیرمعمولی انتظامات اور بھاری اخراجات کی ضرورت نہیں رہے گی۔

 اہل پشاور کے اکثریت بالخصوص اندرون شہر رہنے والے محرم الحرام کے دوران آزادانہ آمدورفت چاہتے ہیں‘ جس کے لئے ٹریفک پلان اور انتظامات کی تشہیر ہونی چاہئے۔ سوشل میڈیاکے زمانے میں اُس نفرت انگیز مواد پر بھی نگاہ رکھی جائے ’محرم الحرام سیکورٹی پلان‘ کے تحت کسی ایک مہینے اور بالخصوص اُس کے پہلے دس اور مکمل پچاس دنوں کا احاطہ کرنے کی بجائے ضروری ہے کہ پشاور کو وہ ماضی واپس دلایا جائے‘ جس میں یہاں کے کسی بھی رہنے والے کو دوسرے سے خطرہ نہیں ہوتا تھا۔ اس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ پشاور میں ایسا ماحول تشکیل دینا چاہیے جہاں خوف کے سائے کی بجائے امن وسکون اور آشتی ہو۔ پولیس حکام کی کوششوں پر کوئی شک نہیں کیاجاسکتا وہ خلوص نیت سے پشاور کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے کوشاں ہے اور اسی ارادے سے محرم کا پلان تشکیل دیتے ہیں تاہم یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ متبادل کوششوں سے ایسی فضا تشکیل دی جاسکتی ہے جہاں اس قدر بڑے پیمانے پر اور کثیر اخراجات سے حفاظتی اقدامات کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، ماضی اس کی گواہ ہے کہ یہاں پر بلاخوف وجھجک معمول کی زندگی محرم میں بھی بحال رہتی تھی اور اب بھی ایسا ہوسکتا ہے۔